وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا ۖ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنبِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ مَن كَانَ مُخْتَالًا فَخُورًا
اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ سلوک و احسان کرو اور رشتہ داروں سے اور یتیموں سے اور مسکینوں سے اور قرابت دار ہمسایہ سے اور اجنبی ہمسائے سے (١) اور پہلو کے ساتھی سے (٢) اور راہ کے مسافر سے اور ان سے جن کے مالک تمہارے ہاتھ ہیں (غلام، کنیز) (٣) یقیناً اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والے اور شیخی خوروں کو پسند نہیں فرماتا۔ (٤)
29: قرآن و سنت نے پڑوسیوں کے حقوق کی رعایت اور ان کے ساتھ حسن سلوک کی بڑی تاکید فرمائی ہے پھر پڑوسیوں کے تین درجے اس آیت میں بیان فرمائے گئے ہیں۔ پہلے درجے کو ” جار ذی القربی“ (قریب والا پڑوسی) اور دوسرے کو ” الجار الجنب“ کہا گیا ہے جس کا ترجمہ اوپر دور والے پڑوسی سے کیا گیا ہے۔ پہلے سے مراد وہ پڑوسی ہے جس کا گھر اپنے گھر سے بالکل ملا ہوا ہو، اور دوسرے سے مراد وہ پڑوسی ہے جس کا گھر اتنا ملا ہوا نہ ہو۔ بعض حضرات نے اس کی تفسیر یہ کی ہے کہ پہلے سے مراد وہ پڑوسی ہے جو رشتہ دار بھی ہو، اور دوسرے مراد وہ جو صرف پڑوسی ہو۔ نیز بعض مفسرین نے پہلے کا مطلب مسلمان پڑوسی اور دوسرے کا مطلب غیر مسلم پڑوسی بتایا ہے قرآن کریم کے الفاظ میں ان سب معانی کی گنجائش ہے۔ خلاصہ یہ کہ پڑوسی چاہے رشتہ دار ہویا اجنبی، مسلمان ہو یا غیرمسلم، اس کا گھر بالکل ملا ہوا ہو یا ایک دو گھر چھوڑکر ہو، ان سب کے ساتھ اچھے برتاؤ کی تاکید فرمائی گئی ہے۔ 30: یہ پڑوسی کی تیسری قسم ہے جس کو قرآن کریم نے صاحب بالجنب سے تعبیر فرمایا ہے۔ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ: اس سے مراد وہ شخص ہے جو عارضی طور پر تھوڑی دیر کے لئے ساتھی بن گیا ہو، مثلاً سفر کے دوران ساتھ بیٹھا یا کھڑا ہو، یا کسی مجلس یا کسی لائن میں لگے ہوئے اپنے پاس ہو، وہ بھی ایک طرح کا پڑوسی ہے اور اس کے ساتھ بھی اچھے برتاؤ کی تاکید فرمائی گئی ہے، بلکہ اس سے بھی آگے ہر راہ گیر اور مسافر کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے چاہے وہ اپنا ساتھی یا پڑوسی نہ ہو۔