وَإِذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُم مُّصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِن بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ ۖ فَلَمَّا جَاءَهُم بِالْبَيِّنَاتِ قَالُوا هَٰذَا سِحْرٌ مُّبِينٌ
اور جب مریم کے بیٹے عیسیٰ نے کہا اے میری قوم، بنی اسرائیل! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں مجھ سے پہلے کی کتاب تورات کی میں تصدیق کرنے والا ہوں (١) اور اپنے بعد آنے والے ایک رسول کی میں تمہیں خوشخبری سنانے والا ہوں جن کا نام احمد ہے (٢) پھر جب وہ انکے پاس کھلی دلیلیں لائے تو کہنے لگے، یہ تو کھلا جادو ہے (٣)۔
(٢) حضرت عیسیٰ کایہ کہنا کہ، میں تورات کا مصدق (تصدیق کنندہ) ہوں اس کے معنی یہ ہیں کہ میں ان بشارتوں کا مصداق ہوں جو میری آمد کے متعلق تورات میں موجود ہیں، لہذا میری مخالفت کے بجائے تمہیں چاہیے کہ میرا خیر مقدم کرو، اور اسکے بعد والے فقرے کو ملا کرپڑھیں تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ میں اللہ کارسول احمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق تورات کی دی ہوئی بشارت کی تصدیق کرتا ہوں اور کو دبھی ان کے آنیکی بشارت دیتا ہوں تورات میں جو بشارت نبی کے متعلق مذکور ہے وہ حضرت موسیٰ کی زبان سے دی گئی ہے اور حضرت عیسیٰ نے اس کی تصدیق کا اعلان کیا ہے، چنانچہ باب، ١٨، آیات ١٥۔ ١٩، استثناء میں مذکور ہے۔ میں ان کے لیے انہی بھائیوں میں سے تیزی مانند ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں حکم دوں گا، وہ وہی ان سے کہے گا، الخ۔ تورات کی یہ صریح پیش گوئی ہے جو نبی کے سوا کسی اور پر چسپاں نہیں ہوسکتی، اس میں حضرت موسیٰ اپنی قوم کو یہ ارشاد سنا رہے ہیں کہ میں تیرے لیے ہی بھائیوں سے ایک نبی برپا کروں گا اور بنی اسرائیل کے بھائیوں سے مراد لامحالہ بنواسماعیل ہیں جو حضرت ابراہیم کی اولاد سے ہونے کی وجہ سے ان کے بھی رشتہ دار ہیں، دوسری بات جو پیش گوئی میں ہے وہ یہ ہے کہ جو نبی برپا کیا جائے گا وہ حضرت موسیٰ کی مانند ہوگا، یعنی حضرت موسیٰ کی مانند مستقل شریعت کا حامل ہوگا، اور ظاہر ہے کہ حضرت موسیٰ کے بعد گوہت سے نبی ہوئے لیکن مستقل شریعت لانے والے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی ہوسکتے ہیں نیز اس آیت میں حضرت عیسیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خصوصی نام لے کرآپ کی آمد کی بشارت دی ہے اور تورات میں فارقلیط (پیراکلیٹس) والی پیش گوئی حرف بحرف نبی پر صادق آتی ہے جس کے معنی، محمد، کے ہیں، یونانی میں برقلیطس ہے، اصل لفظ سریانی، منحمنا، ہے اور برناس کی انجیل میں تو صاف طور پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق پیش گوئیاں موجود ہیں تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفسیر حقانی وتفہیم القرآن تفسیر سورۃ الصف۔