وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۖ كِتَابَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ ۚ وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَٰلِكُمْ أَن تَبْتَغُوا بِأَمْوَالِكُم مُّحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ ۚ فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً ۚ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا تَرَاضَيْتُم بِهِ مِن بَعْدِ الْفَرِيضَةِ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا
اور حرام کی گئی شوہر والی عورتیں مگر وہ جو تمہاری ملکیت میں آ جائیں (١) اللہ تعالیٰ نے احکام تم پر فرض کر دئیے ہیں، ان عورتوں کے سوا اور عورتیں تمہارے لئے حلال کی گئیں کہ اپنے مال کے مہر سے تم ان سے نکاح کرنا چاہو برے کام سے بچنے کے لئے نہ کہ شہوت رانی کے لئے (٢) اس لئے جن سے تم فائدہ اٹھاؤ انہیں ان کا مقرر کیا ہوا مہر دے دو (٣) اور مہر مقرر ہونے کے بعد تم آپس کی رضامندی سے جو طے کرلو تم پر کوئی گناہ نہیں (٤) بیشک اللہ تعالیٰ علم والا حکمت والا ہے۔
20: جوکنیزیں جہاد کے دوران گرفتار کرکے لائی جاتی تھیں اور ان کے شوہر دارالحرب میں رہ جاتے تھے ان کا نکاح ان شوہروں سے ختم ہوجاتا تھا، لہذا جب وہ دارالاسلام میں آنے کے بعد ایک حیض کی مدت پوری کرلیتیں اور ان کو پچھلے شوہر سے حمل نہ ہوتا تو ان کا نکاح دارالاسلام کے کسی مسلمان سے جائز تھا، مگر یہ حکم انہی باندیوں کا ہے جو شرعی طور پر باندی بنائی گئی ہوں، آجکل ایسی کنیزوں یا باندیوں کا کہیں وجود نہیں ہے۔ 21: مقصد یہ ہے کہ نکاح ایک دیرپا تعلق کا نام ہے جس کا مقصد صرف جنسی خواہش پوری کرنا نہیں ہے بلکہ ایک مضبوط خاندانی نظام کا قیام ہے جس میں مرد اور عورت ایک دوسرے کے حقوق اور ذمہ داریوں کے پابند ہوتے ہیں اور اس رشتے کو عفت وعصمت کے تحفظ اور بقائے نسل انسانی کا ذریعہ بناتے ہیں، صرف شہوت نکالنے کے لئے ایک عارضی تعلق پیدا کرلینا خواہ وہ پیسے خرچ کرکے ہی کیوں نہ ہو ہرگز جائز نہیں ہے۔