بَلْ كَذَّبُوا بِالْحَقِّ لَمَّا جَاءَهُمْ فَهُمْ فِي أَمْرٍ مَّرِيجٍ
بلکہ انہوں نے سچی بات کو جھوٹ کہا جبکہ وہ ان کے پاس پہنچ چکی پس وہ الجھاؤ میں پڑگئے ہیں (١)۔
(٣)۔ کفار کا آخرت سے انکار نہایت بے معنی بات ہے اس کے بعد آیت ٦ سے آخرت پر دلائل کاسلسلہ شروع ہورہا ہے اور ان دلائل میں عالم بالا کے نظام اور زمین کی خلقت کو نمایا حیثیت حاصل ہے اور پھر کائنات کایہ سارا مستحکم نظام صرف امکان آخرت کی ہی دلیل نہیں ہے بلکہ اس سے توحید کا ثبوت بھی ملتا ہے۔ جس طرح قرآن مجید نے ربوبیت کے اعمال ومظاہرے سے استدلال کیا ہے اسی طرح وہ رحمت کے آثار وحقائق سے بھی جابجا استدلال کرتا ہے، ممکن نہیں کہ فضل و رحمت کی یہ پوری کائنات موجود ہو اور فضل و رحمت کا کوئی زندہ ارادہ موجود نہ ہو، چنانچہ وہ مقامات جن میں کائنات خلقت کے افادہ وفیضان، زینت وجمال واعتدال، تسویہ، وقوام اور تکمیل واتقان کا ذکر کیا گیا ہے دراصل اسی استدلال پر مبنی ہے۔