الَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَانًا وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ
وہ لوگ جب ان سے لوگوں نے کہا کہ کافروں نے تمہارے مقابلے میں لشکر جمع کر لئے ہیں۔ تم ان سے خوف کھاؤ تو اس بات نے انہیں ایمان میں اور بڑھا دیا اور کہنے لگے ہمیں اللہ کافی ہے اور وہ بہت اچھا کارساز ہے (١)۔
59: جب کفار مکہ احد کی جنگ سے واپس چلے گئے تو راستے میں انہیں پچھتاوا ہوا کہ ہم جنگ میں غالب آجانے کے باوجود خواہ مخواہ واپس آگئے، اگر ہم کچھ اور زور لگاتے تو تمام مسلمانوں کا خاتمہ ہوسکتا تھا۔ اس خیال کی وجہ سے انہوں نے مدینہ منورہ کی طرف لوٹنے کا ارادہ کیا۔ دوسری طرف آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شاید ان کے ارادے سے باخبر ہو کر یا احد کے نقصان کی تلافی کے لیے جنگ احد کے اگلے دن سویرے صحابہ میں یہ اعلان فرمایا کہ ہم دشمن کے تعاقب میں جائیں گے، اور جو لوگ جنگ احد میں شریک تھے صرف وہ ہمارے ساتھ چلیں۔ صحابہ کرام اگرچہ احد کے واقعات سے زخم خوردہ تھے، اور تھکے ہوئے بھی تھے، مگر انہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس دعوت پر لبیک کہا جس کی تعریف اس آیت میں کی گئی ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے صحابہ کے ساتھ مدینہ منورہ سے نکل کر حمراء الاسد کے مقام پر پہنچے تو وہاں قبیلہ خزاعہ کا ایک شخص معبد آپ سے ملا جو کافر ہونے کے باوجود آپ سے ہمدردی رکھتا تھا، اس نے مسلمانوں نے کے حوصلے کا خود مشاہدہ کیا اور جب وہاں سے نکلا تو اس کی ملاقات کفار مکہ کے سردار ابو سفیان سے ہوگئی، اس نے ابو سفیان کو مسلمانوں کے لشکر اور اس کے حوصلوں کے بارے میں بتایا اور مشورہ دیا کہ وہ لوٹ کر حملہ کرنے کا ارادہ ترک کر کے واپس چلا جائے۔ اس سے کفار پر رعب طاری ہوا اور وہ واپس تو چلے گئے لیکن عبدالقیس کے ایک قافلے سے جو مدینہ منورہ جا رہا تھا یہ کہہ گئے کہ جب راستے میں ان کی ملاقات آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہو تو ان سے یہ کہیں کہ ابو سفیان بہت بڑا لشکر جمع کرچکا ہے اور مسلمانوں کا خاتمہ کرنے کے لیے ان پر حملہ آور ہونے والا ہے مقصد یہ تھا کہ اس خبر سے مسلمانوں پر رعب پڑے۔ چنانچہ یہ لوگ جب حمراء الاسد پہنچ کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملے تو یہی بات کہی، لیکن صحابہ کرام نے اس سے مرعوب ہونے کے بجائے وہ جملہ کہا جو اس آیت میں تعریف کے ساتھ نقل کیا گیا ہے۔