وَلَوْ أَنَّهُمْ صَبَرُوا حَتَّىٰ تَخْرُجَ إِلَيْهِمْ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ ۚ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اگر یہ لوگ یہاں تک صبر کرتے کہ آپ خود سے نکل کر ان کے پاس آجاتے تو یہی ان کے لئے بہتر ہوتا (١) اور اللہ غفور و رحیم ہے۔ (٢)
(٢)۔ ابتدائی پانچ آیات میں وہ آداب بتائے ہیں جن کو اللہ اور رسول کے معاملہ میں ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ الف۔ ایمان کا اولین تقاضا یہ ہیکہ اپنی رائے وخیال کو اللہ و رسول کے فیصلے پر مقدم نہ رکھے۔ ب۔ نبی کے ساتھ ملاقات اور بات چیت میں آپ کے احترام کو ملحوط رکھیں کہ کسی شخص کی آواز آپ سے بلند نہ ہو، عام آدمیوں کی طرح آپ سے خطاب نہ کیا جائے اس کے مخاطب گو وہ لوگ ہیں جو آپ کے زمانہ میں موجود تھے مگر اب بھی یہ ضروری ہے کہ جب نبی کا ذکر ہورہا ہو یا آپ کی احادیث سنائی جارہی ہوں تو پھر بھی یہی ادب ملحوظ رہنا چاہیے آپ کے ساتھ بے ادبی یاگستاخی تمام اعمال کے ضائع ہونے کاسبب بن سکتی ہے۔ (ج)۔ بارہا ایسے ناشائستہ لوگ بھی آپ کی ملاقات کے لیے آجاتے ہیں جو بجائے اطلاع دینے کے، ازواج مطہرات کے حجروں کے گرد چکر کاٹ کر باہر ہی سے آپ کو بلاتے ہیں نبی کو ان کی حرکات سے سخت تکلیف ہوتی، آخرکار اللہ نے ان ناشائستہ حرکات پر انہیں ملامت کی اور انہیں ہدایت دی کہ اس طرح پکارنے کے بجائے بیٹھ کر انتظار کرلیاکرو۔