سورة الفتح - آیت 15

سَيَقُولُ الْمُخَلَّفُونَ إِذَا انطَلَقْتُمْ إِلَىٰ مَغَانِمَ لِتَأْخُذُوهَا ذَرُونَا نَتَّبِعْكُمْ ۖ يُرِيدُونَ أَن يُبَدِّلُوا كَلَامَ اللَّهِ ۚ قُل لَّن تَتَّبِعُونَا كَذَٰلِكُمْ قَالَ اللَّهُ مِن قَبْلُ ۖ فَسَيَقُولُونَ بَلْ تَحْسُدُونَنَا ۚ بَلْ كَانُوا لَا يَفْقَهُونَ إِلَّا قَلِيلًا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

جب تم غنیمتیں لینے جانے لگو گے تو جھٹ سے یہ پیچھے چھوڑے ہوئے لوگ کہنے لگیں گے کہ ہمیں بھی اپنے ساتھ چلنے کی اجازت دیجئے، (١) وہ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے کلام کو بدل دیں (٢) آپ کہہ دیجئے! کہ اللہ تعالیٰ ہی فرما چکا ہے کہ تم ہرگز ہمارے ساتھ نہیں چلو گے (٣) وہ اس کا جواب دیں گے (نہیں نہیں) بلکہ تم ہم سے حسد کرتے ہو (٤) (اصل بات یہ ہے) کہ وہ لوگ بہت ہی کم سمجھتے ہیں (٥)

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(٣) حدیبیہ سے واپس آکر آپ نے خبیر پر چڑھائی کی جہاں غدار یہود آباد تھے اور انہوں نے جنگ احزاب میں بدعہدی کرکے کفار کا ساتھ دیا ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خبر دی کہ وہ گنوار جوحدیبیہ نہیں گئے اب خیر کے معرکہ میں تمہارے ساتھ جانے کو کہیں گے کیونکہ وہاں غنیمت کی امید ہے آپ ان سے کہہ دیجئے کہ تمہاری اس استدعا سے قبل ہی اللہ تعالیٰ ہمیں مطلع کرچکا ہے کہ تم اس سفر میں ہمارے ساتھ نہیں جاسکتے۔ اب اگر جاؤ گے تو گویا اللہ کا فرمان بدل گیا جوکسی طرح ممکن نہیں ہے۔