سورة الأحقاف - آیت 21

وَاذْكُرْ أَخَا عَادٍ إِذْ أَنذَرَ قَوْمَهُ بِالْأَحْقَافِ وَقَدْ خَلَتِ النُّذُرُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا اللَّهَ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور عاد کے بھائی کو یاد کرو، جبکہ اس نے اپنی قوم کو احقاف میں ڈرایا (١) اور یقیناً اس سے پہلے بھی ڈرانے والے گزر چکے ہیں اور اس کے بعد بھی یہ کہ تم سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کی عبادت نہ کرو بیشک میں تم پر بڑے دن کے عذاب سے خوف کھاتا ہوں (٢)۔

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(٥) قریش کے سردار اپنی بڑائی کا زعم رکھتے اور انہیں اپنی ثروت ومشیخت کا بڑا گھمنڈ تھا اس لیے ان کو قوم عاد کا قصہ سنایا جو قدیم زمانہ میں اس سرزمین میں سب سے زیادہ طاقتور قوم تھی۔ (٦) احقاف جمع ہے، حقف، کی اور حقف کے معنی اس لمبے ٹیلے کے ہیں جو بلندی میں پہاڑ کی حد کو نہ پہنچے وہ قوم عرب کے اس علاقے میں آباد تھی جوصحرائے اعظم (ربع خالی) کہلاتا ہے اس میں حضرت موت حضرت ہود کا مزاربنا ہوا ہے اس بناپرقرین قیاس یہی ہے کہ یہ لوگ اسی علاقے میں آباد تھے اور ان کا علاقہ عمان سے یمن تک پھیلاہوا تھا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرموت کایہ علاقہ ہزاروں سال پہلے سرسبز وشاداب تھا بعد میں آب وہوا کی تبدیلی نے اسے کھنڈر میں تبدیل کردیا یہ بہت نشیبی علاقہ ہے جہاں پہنچنا بہت دشوار ہے ان کی تفصیل سورۃ ہود میں گزرچکی ہیں۔