وَجَعَلُوا لَهُ مِنْ عِبَادِهِ جُزْءًا ۚ إِنَّ الْإِنسَانَ لَكَفُورٌ مُّبِينٌ
اور انہوں نے اللہ کے بعض بندوں کو جز ٹھہرا (١) دیا یقیناً انسان کھلا ناشکرا ہے۔
(٣) اس سورۃ میں مشرکین کے جاہلی عقائد پرتنقید کی ہے اور اس سلسلے میں حسب ذیل عقائد ذکر کیے ہیں : (الف) بعض بندوں کو اللہ کی اولاد قرار دے دیا اور انہیں اللہ کی ذات میں شریک ٹھہرالیا، اس کو قرآن مجید نے بہت بڑی ناشکری قرار دیا ہے۔ (ب) وہ کہتے فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں ان کی مورتیاں بناکرپوجتے تھے قرآن مجید نے اس پرزور دار تنقید کی کہ تم اپنے لیے تونرینہ اولاد پسند کرتے ہو اور اللہ کے لیے مادینہ اگر کسی کے گھر میں لڑکی پیدا ہوجائے تو اس کا چہرہ سیاہ پڑجاتا ہے پھر یہ کہاں کا انصاف ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ فرشتے اللہ کے بندے ہیں۔ (ج) اپنی گمراہی پر تقدیر سے استدلال کرتے چنانچہ آیت ٢٠ میں اسی گمراہی کا بیان ہے کفار نے اپنی گمراہی اور شرک وکفر کی راہ پر چلنے کے لیے ہر دور میں اپنے آباواجداد کی اندھی تقلید کو پیش کیا اور اس پرانے نظام پر جمے رہنے پر اصرار کیا جس سے ان کے مفاد وابستہ تھے۔ قرآن مجید نے کفار کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر آباواجداد کی تقلید ہی کرنی ہے تو پھر حضرت ابراہیم کی پیروی کیوں اختیار نہیں کرتے کہ انہوں نے آبائی دین کوچھوڑ کرتوحید کی راہ اختیار کرلی تھی اور ایک اللہ کو اپنا معبود بنالیا تھا۔ مولانا آزاد رحمہ اللہ تعالیٰ حضرت ابراہیم کی بتوں سے بے زاری اور اپنے خالق کے ساتھ حقیقی لگاؤ کے اظہار پرلکھتے ہیں : فطرت صحیحہ اور خلقت مستقیمہ انبیائے کرام کے اندر سے نمایاں ہوتی ہے اس لیے وہ اللہ تعالیٰ کے اس احسان کا ذکر بار بار کرتے ہیں یہی فطرت اصلیہ صالحۃ ہے جوان کے عصر دور کی عام تاریکی وضلالت کے اندر چمک کرحقیقت محجوبہ کاروشن راستہ دکھادیتی ہے۔ (د) کفار یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر اللہ نے کوئی رسول بھیجنا ہوتا اور اس پر اپنی کتاب نازل کرنے کا ارادہ کرتا تو دو مرکزی شہروں مکہ اور طائف میں کسی بڑے سردار یہ کلام نازل کردیتا یہ بات کہنے والے وہ لوگ تھے جواول تو کسی بشر کی رسالت کے قائل ہی نہ تھے۔ اور پھ رجب مجبور ہو کر انہیں قائل ہوناپڑا تو انہوں نے دوسرا اختیار کرلیا کہ بشر ہی رسول سہی مگر وہ کوئی بڑا آدمی ہونا چاہیے جو مالدار اور جتھے والا ہو۔ بہرحال محمد بن عبداللہ اس کاہل نہیں ہے (معاذ اللہ) قرآن مجید نے آیت ٣٢ میں اسی اعتراض کا جواب دیا کہ : بلاشبہ مال ودولت میں لوگوں کے مختلف درجے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مشیت سے رکھے ہیں اسی طرح منصب نبوت سے سرفرازی سراسر اللہ کی رحمت ہے اور یہ ہر لحاظ سے بہتر ہے۔ اللہ تعالیٰ جس پر چاہے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے۔