وَإِنَّهُ فِي أُمِّ الْكِتَابِ لَدَيْنَا لَعَلِيٌّ حَكِيمٌ
یقیناً یہ لوح محفوظ میں ہے اور ہمارے نزدیک بلند مرتبہ حکمت (١) والی ہے۔
تفسیر وتشریح۔ (١) ان سورتوں کے مضامین پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ سورۃ المومن، حم السجدہ، الشوری، ایک ہی سلسلے کی متعدد سورتیں ہیں اور ان کا زمانہ نزول بھی قریب قریب ایک ہی ہے اس سورۃ میں ان جاہلانہ عقائد واوہام کی تردید کی گئی ہے جن پر اہل عرب اور قریش آباواجداد سے مصر چلے آرہے تھے اور کسی طرح ان کوچھوڑنے کے لیے تیار نہ تھے۔ قرآن مجید وحی الٰہی ہے اور عربی زبان میں نازل کیا گیا ہے یہ ناممکن ہے کہ تمہارے مسرفانہ رویہ کی وجہ سے اس کی تنزیل کو روک دیا جائے۔ ام الکتاب کے معنی اصل کتاب کے ہیں، مراد لوح محفوظ ہے جس سے تمام سماوی کتابیں الگ کرکے نازل کی گئی ہیں چنانچہ سورۃ واقعہ میں اسی کو، کتاب مکنون، اور سورۃ بروج میں، لوح محفوظ، فرمایا ہے یعنی ایسی کتاب یالوح جو ہرقسم کی دراندازی سے محفوظ ہے۔ سورۃ شعراء میں قرآن مجید کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا، وانہ لفی زبرالاولین، کہ یہ اگلے لوگوں کی کتابوں میں موجود ہے نیز سوۃ الاعلی میں کچھ احکام بیان کرنے کے بعد فرمایا، ان ھذا لفی الصحف الاولی صحف ابراہیم وموسی، کہ قرآن مجید کے یہ مضامین پہلی کتابوں میں بھی درج ہیں، اسی بنا پر قرآن مجید کو، مصدقا لمابین یدیہ اور مھیمن، بھی قرار دیا ہے حاصل کلام یہ ہے کہ جب واقعہ یہ ہے تو قرآن مجید کا انکار کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے بلکہ اس کا انکار پہلی تمام کتابوں کے انکار کے مترادف ہے۔