سورة فصلت - آیت 3

كِتَابٌ فُصِّلَتْ آيَاتُهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لِّقَوْمٍ يَعْلَمُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

ایسی کتاب جس کی آیتوں کی واضح تفصیل کی گئی ہے (١) (اس حال میں کہ) قرآن عربی زبان میں ہے (٢) اس قوم کے لئے جو جانتی ہے (٣)

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

تفسیر وتشریح۔ (١) یہ سورۃ بھی مکی عہد کی سورتوں سے ہے اور اس کا زمانہ نزول حضرت حمزہ کے ایمان لانے کے بعد اور حضرت عمر کے ایمان لانے سے پہلے ہے علمائے سیرت نے نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ عتبہ بن ربیعہ کفار مکہ کے مشورہ سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خد مت میں حاضر ہوا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے مفاہمت کی متعدد صورتیں پیش کیں اور سرداران قریش کی طرف سے پیش کش کی ہم آپ کو اپنا لیڈر بنا لیتے ہیں بشرطیکہ آپ اس تحریک سے دست بردار ہوجائیں اس پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سورۃ کی ابتداء سے ٣٨ آیات سنائیں اور عتبہ نے متاثرہوکر اپنی قوم سے کہا، بخدا یہ کلام نہ شعر ہے اور نہ سحر وکنایت ہے اس کی تاثیر کچھ عجیب سی ہے اس لیے میری بات مانو اور اس شخص کو اس کی حالت پرچھوڑ دو اس سورۃ کے مضمون پر غور کرنے سے یہ چیز سامنے آتے ہے کہ کفار نہایت ہٹ دھرمی سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کی مخالفت کررہے تھے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب قرآن مجید سنانے کے لیے کھڑے ہوتے توہنگامہ بپاکردیتے تاکہ قرآن کی آواز کسی کے کان میں نہ پڑے۔ ” عام مشرکین عرب جن کے پاس ایمان و خدا پرستی کی کوئی تعلیم موجود نہ تھی محض رسوم واوہام کے پجاری اور تقلید آباء واجداد کی مخلوق تھے ان میں اکثر کی طبعتیں گمراہی وفساد کی پختگی سے اس درجہ مسخ ہوگئی تھیں کہ کتنی ہی اچھی بات کہی جائے ماننے والے نہ تھے “۔ پھر قرآن مجید کی باتوں کو الٹے معنی پہناتے اور عجیب عجیب قسم کے اعتراضات کرتے، مثلا وہ کہتے کہ قرآن مجید عربی زبان میں پڑھتا آپ کا کوئی معجزہ نہیں ہے یہ معجزہ تو جب ہوتا کہ کسی دوسری زبان میں یہ قرآن اترا ہوتا، وغیرہ۔ اس سورۃ میں ان کی کچھ اسی قسم کی مخالفت کے جوابات دیے گئے ہیں اور ساتھ ہی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صبر اور اخلاق حسنہ سے پیش آنے کی تلقین کی ہے۔