قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِي وَهَبْ لِي مُلْكًا لَّا يَنبَغِي لِأَحَدٍ مِّن بَعْدِي ۖ إِنَّكَ أَنتَ الْوَهَّابُ
کہا اے میرے رب! مجھے بخش دے اور مجھے ایسا ملک عطا فرما جو میرے سوا کسی (شخص) کے لائق نہ ہو (١) تو بڑا ہی دینے والا ہے۔
(٥) قصہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) : جس طرح حضرت داؤد (علیہ السلام) کی تعریف کے بعد ایک واقعہ کا ذکر کیا ہے اسی طرح حضرت سلیمان کی تعریف کے بعد اس فتنہ کا ذکر کیا ہے جس میں وہ مبتلا ہوئے اور پھر اپنی غلطی پر متنبہ ہوکرانہوں نے معافی مانگ لی اور اپنے رب کی طرف رجوع ہوئے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے متعلق قرآن مجید نے مختصر الفاظ میں جو واقعہ بیان کیا ہے اس کے پس منظر میں بعض نے لمباچوڑا افسانہ ذکر کیا ہے اسرائیلی روایات میں ہے کہ حضرت سلیمان جس انگوٹھی کی بدولت حکمرانی کرتے تھے وہ کسی نہ کسی طرح شیطان نے چھین لی اور وہ حکمران بن بیٹھا، ایت میں، القینا علی کرسیہ جسد ثم اناب، کا یہی مفہوم بیان کیا گیا ہے، حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں : ” رویت ھذہ القصۃ مطولۃ عن جماعۃ من السلف (رض) وکلھا متعلقاہ من قصص اھل الکتاب واللہ اعلم بالصواب“۔ بعض مفسرین نے بیان کیا ہے کہ حضرت سلیمان نے ایک روز قسم کھائی کہ آج رات اپنی ستربیویوں کے پاس جاؤں گا اور ہر ایک سے مجاہد پیدا ہوگا مگر وہ انشاء اللہ کہنابھول گئے اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ صرف ایک بیوی حاملہ ہوئی اور ان سے بھی ایک ادھورا بچہ پیدا ہوا جودائی نے لاکر حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی کرسی پر ڈال دیا، یہ دیکھ کر حضرت سلیمان ندامت کے ساتھ اللہ کی طرف رجوع ہوئے اور انشاء اللہ نہ کہنے پر استغفار کیا۔ یہ واقعہ مختلف طریق سے مروی ہے مگر بعض جدت مفسرین نے صحت سند کے باوجود اس لیے اس کی تکذیب کی ہے کہ اس کا مضومن صریح عقل کے خلاف ہے پھر انہوں نے تورات کی رو سے آیت کی تاویل پیش کی ہے کہ دراصل حضرت سلیمان (علیہ السلام) اپنے لڑکے رحبعام کو اپنا وارث بنانا چاہتے تھے لیکن وہ نالائق ثابت ہوا اسی کو اللہ نے حضرت سلیمان کے حق میں فتنہ قرار دیا ہے اس پر حضرت سلیمان (علیہ السلام) متنب ہوئے اور بالآخر اللہ سے دعا کی جو قرآن مجید میں مذکور ہے اس کے بعد حضرت سلیامن نے اپنی جانشینی کے لیے نہ وصیت کی اور نہ کسی کی اطاعت کے لیے لوگوں کو پابند کیا حضرت سلیمان کے بعد اعیان سلطنت نے رحبعام کو تخت پر بٹھایا۔ مگر کچھ زیادہ مدت نہ گزری تھی کہ بنی اسرائیل کے دس قبیلے شمالی فلسطین کا علاقہ لے کرالگ ہوگئے اور صرف یہوداہ کا قبیلہ بیت المقدس کے تخت سے وابستہ رہ گیا۔