اصْبِرْ عَلَىٰ مَا يَقُولُونَ وَاذْكُرْ عَبْدَنَا دَاوُودَ ذَا الْأَيْدِ ۖ إِنَّهُ أَوَّابٌ
آپ ان کی باتوں پر صبر کریں اور ہمارے بندے داؤد (علیہ السلام) کو یاد کریں جو بڑی قوت والا تھا (١) یقیناً وہ بہت رجوع کرنے والا تھا۔
(٣) آیت ١٧ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صبر کی تلقین کی اور حضرت داؤد کا اسوہ سامنے رکھنے کی ہدایت فرمائی کہ انہوں نے طالوت کے عہد حکومت میں بہت صبر کیا آخر حکومت انہیں ملی اور مخالفین زیر ہوئے یاجیسے حضرت داؤد (علیہ السلام) پر مخالفین نے الزام لگائے حالانکہ وہ بری تھے اسی طرح یہ لوگ آپ پر الزام لگارہے ہیں۔ یہاں پر حضرت داؤد کو، ذالاید، فرمایا ہے یعنی جسمانی لحاظ سے آپ نہایت قوی تھے۔ بائبل میں حضرت داؤد (علیہ السلام) پر زنا کرنے اور پھر اوریاہ حتی کو ایک جنگ میں قصدا مرواکر اس کی بیوی سے نکاح کرلینے کا صاف صاف الزام ہے مگر قرآن مجید نے اس واقعہ کو کنایتہ زکر کیا ہے جس سے یہ تو احساس ہوتا ہے کہ حضرت داؤد سے کوئی غلطی ہوئی ہوگی لیکن اس کی تصریح نہیں ہے۔ ہمارے بعض غیرمحتاط مفسرین نے تو اسرائیلی قصہ کو جوں کاتوں تسلیم کرلیا ہے اور بعض نے انکار کرکے رد کردیا ہے۔ حافظ ابن کثیر بائبل میں مذکور قصہ کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں، قد ذکر المفسروں ھناقصہ اکثرھا ماخوذ من الاسرائیلیات ولم یثبت فیھا عن المعصوم حدیث یجب اتباعہ۔ اسی طرح حافظ ابن حزم نے، الفصل، میں ان کی تردید کی ہے۔ دراصل اس قصہ میں قرآن مجید نے جو کچھ بیان کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بلاشبہ حضرت داؤد (علیہ السلام) اور یاہ کی بیوی پر مائل ہوئے اور طلاق کا مطالبہ کیا اگر اسرائیلی شریعت میں بھی طلاق مان لیاجائے مگر یہ مطالبہ کوئی کبیرہ گناہ نہ تھا تاہم نبی اور بادشاہ کی شان کے شایان بھی نہ تھا جب کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کے حرم میں پہلے ہی متعدد بیویاں تھیں اس پر حضرت داؤد (علیہ السلام) کے پاس دوشخص دنبیوں کا قضیہ لے کر آئے اور وہ بھی دیوار پھاند کرآئے جب کہ عدالت کا وقت ختم ہوچکا تھا۔ حضرت داؤد نے ان کے درمیان صحیح فیصلہ تو کردیا مگر ساتھ ہی انہیں تنبہ ہوا کہ اور یاہ سے میرا مطالبہ بھی تو اسی طرح ناحق ہی ہے چنانچہ انہوں نے اپنے مطالبہ سے رجوع کرلیا اور اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ بجالائے۔ قرآن مجید نے جس انداز سے یہ قصہ بیان کیا ہے اس سے نہ تو نبی کی عصمت مجروح ہوتی ہے اور نہ حضرت داؤد ہی کے مقرب الٰہی ہونے میں فرق آتا ہے مگر بائبل میں یہود کی حضرت سلیمان (علیہ السلام) سے دشمنی نے اس قصہ کو طول دے دیا ہے کہ ایک توحضرت داؤد پر زنا کی تہمت ہے اور دوسری طرف حضرت سلیمان کو معاذ اللہ زنا کا نطفہ بتایا ہے حالانکہ قرآن مجید نے سلیمان کو اللہ کی بخشش قرار دیا ہے۔