لِّيُنذِرَ مَن كَانَ حَيًّا وَيَحِقَّ الْقَوْلُ عَلَى الْكَافِرِينَ
تاکہ وہ ہر شخص کو آگاہ کر دے جو زندہ ہے (١) اور کافروں پر حجت ثابت ہوجائے (٢)۔
(١٢) آیت ٦٩، ٧٠ میں کفار کے الزامات کی تردید ہے کفار قریش کو آپ کی دعوت کورد کرنے کے لیے کوئی اور بہانہ نہ ملتا تو آپ کی باتوں کوشاعرانہ تخیل قرار دے کربیوقعت ٹھہرانے کی کوشش کرتے، ان کے جواب میں فرمایا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نبوت ورسالت کے جس مقام پر فائزہیں شاعری کو اس سے کوئی مناسبت نہیں شاعری کا حسن اور کمال تو جھوٹ، مبالغہ آرائی، بلندخیالی، بلند پروازی اور فرضی نکتہ آفرینی ہے جب کہ نبی (علیہ السلام) کی شان ان چیزوں سے بلند وبالا ہے اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طبعیت ہی ایسی بنائی تھی کہ باوجود خاندان عبدالمطلب سے ہونے کے جس کاہرفرد فطرۃ شاعر ہوتا پوری عمر میں کوئی شعر نہ کہا۔ یوں رجز وغیرہ کے موقع پر زبان مبارک سے کبھی کوئی مقفی عبارت ایسی نکل گئی جوشعر کا وزن رکھتی تھی تو وہ الگ بات ہے اسے شعر یا شاعری نہیں کہا جاسکتا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود تو کیا شعر کہتے کسی دوسرے شاعر کا کوئی شعر یا مصرع تک اس کے ٹھیک وزن پر ادا نہ کرپاتے (یانہیں کیا کرتے) تھے۔