سورة الأحزاب - آیت 29

وَإِن كُنتُنَّ تُرِدْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ فَإِنَّ اللَّهَ أَعَدَّ لِلْمُحْسِنَاتِ مِنكُنَّ أَجْرًا عَظِيمًا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور اگر تمہاری مراد اللہ اور اس کا رسول اور آخرت کا گھر ہے تو (یقین مانو کہ) تم میں سے نیک کام کرنے والیوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے بہت زبردست اجر رکھ چھوڑے ہیں (١)

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(٦) جنگ احزاب اور بنی قریظہ کے متصل زمانہ میں ہی خانگی طور پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے یہ مشکل پیش آئی کہ ازواج مطہرات نے کچھ زیب وزینت اور زیوارت کے مطالبے شروع کردیے چنانچہ ایک دن آپ اس مخصمے میں ازواج مطہرات کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر تشریف لائے اور انہوں نے واقعات سے باخبر ہو کر اپنی صاحبزادیوں کو زجر وتوبیح شروع کردی کہ تم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیوں پریشان کررہی ہو؟ ایک طرف کفر واسلام کی جنگیں ہورہی تھیں اور دوسری طرف گھریلو پریشانی سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہایت ملول ہورہے اس پر آیات ٢٨ تا ٣٥ نازل ہوئیں، جن میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کو اختیار دیا گیا کہ اگر اسی حالت پر قانع رہ کر آپ کے حرم میں رہنا چاہتی ہیں تو، فبھا، ورنہ انہیں رخصت کردیا جائے گا اس قسم کے الفاظ کواسلامی فقہ میں، تخیر، کا جاتا ہے جس کے معنی تفویض طلاق کے ہیں جس کے احکام سنت میں مذکور ہیں اور محدثین نے اس کی فقہی اہمیت کو واضح کیا ہے، اس وقت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حرم میں غالبا پانچ بیویاں تھیں، حضرت سودہ، حضرت عائشہ، حضرت حفصہ، حضرت ام سلمہ، اور غالبا حضرت زینب۔ ان آیات کے نزول کے بعد سب سے پہلے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عائشہ کو بلایا اور انہیں اختیار دیا لیکن انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کو پسند فرمایا اور طلاق لینے سے انکار کردیا، پھر اسی طرح پر دوسری ازواج مطہرات نے کیا یہ نزاع ختم ہوگیا پھر ساتھ ہی قرآن مجید نے پردہ کے احکام بیان فرمادیے اور ازواج مطہرات امہات المومنین کو اس سلسلہ میں خصوصی ہدایات دیں۔ ” ازواج مطہرات نے توسیع نفقہ اور طلب اسباب کے لیے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پرزورڈالا اور اس مطالبہ میں تمام بیبیاں متفق ہوگئی تھیں حتی کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایلاء کرکے ایک ماہ کے لیے ان سے کنارہ کشی اختیار کرلی تھی اس لیے اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ ایک مرتبہ ہمیشہ کے لیے فیصلہ ہوجائے اور دونوں راستے ان کے آگے پیش کردیے جائیں یاتواللہ اور اس کے رسول کی راہ میں آرام وراحت دنیوی کو بالکل خیر وباد کہیں یا دنیا کے نعائم ولذیذ کے لیے اللہ کے رسول کی رفاقت ترک کردیں ازواج کا متفقہ فیصلہ ہی تھا کہ انہوں نے ہر چیز پر اللہ اور اس کے رسول کو ترجیح دی “۔ اس حکم کے نزول کی بہت سی مصلحتیں پوشیدہ تھی یہ ازواج مطہرات کے لیے بہت بڑی آزمائش تھی دنیا کو دکھلانا تھا کہ جن لوگوں کو اللہ کے رسول نے اپنی زندگی میں شریک کیا ہے ان کے تزکیہ باطن اور خدا پرستی کا کیا حال ہے؟ حکم اگرچہ صرف ازواج مطہرات کے متعلق تھا مگر دراصل اس راہ کے لیے ایک عام بصیرت پوشیدہ ہے اللہ نے ظاہر کیا کہ وہ چیزیں ایک دل میں جمع نہیں ہوسکتیں جو دل خدا اور اس کے رسول کی محبت ومرضاۃ کے طالب ہوں انہیں چاہیے کہ پہلی ہی نظر میں دنیا اور اہل دنیا کی طرف سے دست بردار ہوجائیں۔