يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ اتَّقِ اللَّهَ وَلَا تُطِعِ الْكَافِرِينَ وَالْمُنَافِقِينَ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا
اے نبی! اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا (١) اور کافروں اور منافقوں کی باتوں میں نہ آجانا اللہ تعالیٰ بڑے علم والا اور بڑی حکمت والا ہے (٢)۔
تفسیر وتشریح۔ (١) یہ سورۃ مدنی ہے اور اس کے مضامین جن واقعات پر مشتمل ہیں یعنی غزوہ احزاب، غزوہ بنی قریظہ اور حضرت زینب (رض) کا نکاح، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ٥ ہجری کے آخر میں اس کانزول ہے۔ زینب (رض) کو جب طلاق ہوگئی تو اللہ کی طرف سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم ہوا کہ جاہلی رسم کو توڑنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ زینب سے آپ نکاح کرلیں، مگر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مخالفین کے پروپیگنڈہ کی وجہ سے اس میں کچھ تامل فرمارہے تھے کیونکہ زینب اس سے قبل آپ کے متبنی (منہ بولے بیٹے) حضرت زید کے نکاح میں تھیں جنہوں نے آپ کو نااتفاقی کی بنا پر طلاق دے دی تھی آغاز سورۃ میں اسی اندیشہ کو رفع کرنا مقصود ہے یعنی ایک پیغمبر کا منصب یہ ہے کہ وہ بلاتامل وحی کی پیروی کرے اللہ پر توکل کرے اور مخالفین کے طعن وتشنیع کی پروا نہ کرے قرآن نے بتایا کہ جس طرح ایک شخص کے سینہ میں دو دل نہیں ہوسکتے اور بیوی کو ماں کہنے (یعنی ظہار کرنے) سے وہ حقیقی ماں نہیں بن سکتی اسی طرح منہ بولا بیٹا حقیقی بیٹا نہیں بن سکتا لہذا مخالفین کاپروپیگنڈہ محض حسد وبغض پر مبنی ہے اور اس کی کوئی قانونی یا اخلاقی اساس نہیں ہے۔