إِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَىٰ إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ ۖ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأَحْكُمُ بَيْنَكُمْ فِيمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ
جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے عیسیٰ ! میں تجھے پورا لینے والا ہوں (١) اور تجھے اپنی طرف اٹھانے والا ہوں اور تجھے کافروں سے پاک کرنے والا ہوں (٢) اور تیرے تابعداروں کو کافروں کے اوپر غالب کرنے والا ہوں قیامت کے دن تک (٣) پھر تم سب کا لوٹنا میری ہی طرف ہے میں ہی تمہارے آپس کے تمام تر اختلافات کا فیصلہ کرونگا۔
23: حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے مخالفین نے انہیں سولی پر چڑھانے کا منصوبہ بنایا تھا، لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو آسمان پر اٹھا لیا اور جو لوگ آپ کو گرفتار کرنے واائے تھے ان میں سے ایک شخص کو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا ہم شکل بنا دیا، اور مخالفین نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے دھوکے میں اسے سولی پر چڑھا دیا آیت کا جو ترجمہ یہاں کیا گیا ہے وہ عربی لفظ ” توفی“ کے لغوی معنی پر مبنی ہے، اور مفسرین کی ایک بڑی جماعت نے یہاں یہی معنی مراد لیے ہیں۔ اس لفظ کی ایک اور تشریح بھی ممکن ہے جو حضرت عبداللہ بن عباس سے بھی مروی ہے۔ اس کے لیے ملاحظہ ہو معارف القرآن ص :74 ج :2۔ 24: یعنی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو ماننے والے (خواہ انہیں صحیح طور پر مانتے ہوں جیسے مسلمان، یا غلو کے ساتھ مانتے ہوں، جیسے عیسائی ان کے مخالفین پر ہمیشہ غالب رہیں گے۔ چنانچہ تاریخ میں یسا ہی ہوتا رہا ہے، البتہ صدیوں کی تاریخ میں اگر کچھ مختصر عرصے کے لیے جزوی طور پر کہیں ان کے مخالفین کا غلبہ ہوگیا ہو تو وہ اس کے منافی نہیں ہے۔