اللَّهُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن ضَعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِن بَعْدِ ضَعْفٍ قُوَّةً ثُمَّ جَعَلَ مِن بَعْدِ قُوَّةٍ ضَعْفًا وَشَيْبَةً ۚ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ ۖ وَهُوَ الْعَلِيمُ الْقَدِيرُ
اللہ تعالیٰ وہ ہے جس نے تمہیں کمزوری کی حالت میں (١) پیدا کیا پھر اس کمزوری کے بعد توانائی (٢) دی، پھر اس توانائی کے بعد کمزوری اور بڑھاپا دیا (٣) جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے (٤) وہ سب سے پورا واقف اور سب پر پورا قادر ہے۔
(١٣) آیت ٥٤ میں انسانی زندگی کے ادوار ثلاثلہ کی طرف اشارہ ہے یعنی بچپن، جوانی اور بڑھاپا، اور یہ ساری حالتیں اسی کی پیدا کردہ ہیں اور یہ اسی کے علم وقدرت کے کرشمے ہیں۔ اوپر دلائل آفاق کا ذکر تھا اب یہاں دلائل نفس کی طرف اشارہ فرمادیا ہے (رازی)۔ ” قوموں کی زندگی کا بھی یہی حال ہے کہ قوم پیدا ہوتی ہے بچپنے کا عہد بے فکری سے کاٹ کرجوانی کی طاقت آزمائیوں میں قدم رکھتی ہے یہ وقت کاروبار زندگی کا اصلی اور قومی صحت وتندرستی کا عہد نشاط ہوتا ہے جہاں جاتی ہے اوج واقبال اس کے ساتھ ہوتا ہے اور جس طرف قدم اٹھاتی ہے دنیا اس کے استقبال کے لیے دوڑتی ہے اس کے بعد جوزمانہ آتا ہے اسے پیری وصدعیب کا زمانہ سمجھیے، طرح طرح کے اخلاقی وتمدنی عوارض پیدا ہونے لگتے ہیں جمعیت واتحاد کاشیرازہ بکھر جاتا ہے اجتماعی قوتوں کا اضمحلال نظام ملت کو کمزور کردیتا ہے “۔