فَانظُرْ إِلَىٰ آثَارِ رَحْمَتِ اللَّهِ كَيْفَ يُحْيِي الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۚ إِنَّ ذَٰلِكَ لَمُحْيِي الْمَوْتَىٰ ۖ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
پس آپ رحمت الٰہی کے آثار دیکھیں کہ زمین کی موت کے بعد کس طرح اللہ تعالیٰ اسے زندہ کردیتا ہے؟ کچھ شک نہیں کہ وہی مردوں کو زندہ کرنے والا ہے (١) اور وہ ہر ہر چیز پر قادر ہے۔
(١٢) اوپر ہی رسولوں کے بھیجنے کا تذکرہ تھا اور یہاں بارش بھیجنے کا اس میں اشارہ ہے کہ رسول کی آمد بھی انسان کی اخلاقی وروحانی زندگی کے لیے ویسی ہی رحمت ہے جیسے اس کی مادی ومعاشی زندگی کے لیے بارش کی آمد۔ بارش سے اگر زمین زندہ ہوتی ہے اور لوگوں کی مادی زندگی میں انقلاب کا پیش خیمہ ہوتی ہے تو رسول کی آمد سے بھی انسانوں کے دلوں کی کھیتیاں سرسبز ہوجاتی ہیں اس سے نبوت کی ضرورت پراستدلال ہے کہ جس نے تمہاری جسمانی ضروریات کابندوبست کیا ہے اس کی ربوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ تمہاری روحانی اصلاح کا بھی بندوبست کرے، اور آیت کریمہ ٥٠ میں، انظر، کا کلمہ اللہ تعالیٰ کی قدرت عظیمہ پرتنبیہ کے لیے ہے۔ ” دنیا میں صرف یہی نہیں کہ پانی موجود ہے بلکہ ایک خاص نظام وترتیب سے موجود ہے کیوں یہ سب کچھ ایساہی ہوا؟ کیوں ایسا نہ ہوا؟ کہ پانی موجود ہوتا مگر موجودہ انتظام اور ترتیب سے نہ ہوتا؟ قرآن کہتا ہے اس لیے کہ کائنات ہستی میں ربوبیت کارفرما ہے اور ربوبیت کا مقتضاء یہی ہے کہ پانی اسی ترتیب سے بنے اور اسی ترتیب ومقدار سے تقسیم ہو، یہ رحمت وحکمت تھی جس نے پانی پیدا کیا مگر یہ ربوبیت ہے جو اسے اس طرح کام میں لائی کہ پرورش اور رکھوالی کی تمام ضرورتیں پوری ہوگئیں“۔