أَئِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الرِّجَالَ وَتَقْطَعُونَ السَّبِيلَ وَتَأْتُونَ فِي نَادِيكُمُ الْمُنكَرَ ۖ فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهِ إِلَّا أَن قَالُوا ائْتِنَا بِعَذَابِ اللَّهِ إِن كُنتَ مِنَ الصَّادِقِينَ
کیا تم مردوں کے پاس بد فعلی کے لئے آتے ہو (١) اور راستے بند کرتے ہو (٢) اور اپنی عام مجلسوں میں بے حیائیوں کا کام کرتے ہو (٣) اس کے جواب میں اس کی قوم نے بجز اس کے اور کچھ نہیں کہا بس (٤) جا اگر سچا ہے تو ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کا عذاب لے آ۔
(١٠) قرآن نے بتایا کہ اہل سدوم دوبڑھ گھناؤنے جرائم کے مرتکب تھے، ایک مردوں سے شہوت رانی، دوسرے رہزانی، چنانچہ حضرت لوط ان میں مبعوث ہوئے اور انہوں نے ان جرائم سے انہیں منع کیا تو وہ حضرت لوط کے سر ہوگئے، اور ان سے عذاب کا مطالبہ کرنے لگے، یعنی فحش اور بدکاری کے کام چھپ کر نہیں بلکہ اپنی مجلسوں میں کھلم کھلا کرتے ہو، جیسے سورۃ نمل میں فرمایا، اتاتون الفاحشۃ وانتم تبصرون۔ جو انسان ایک وقت میں اپنے بچوں کی قوت احتساب کو ترقی دے سکتا ہے ایک وقت آتا ہے کہ خود اپنی قوت محستسبہ ہی فناکردیتا ہے اور اس کے تمام حواس ظاہری اور باطنی خارجی ضلالت کے اثر سے معطل ہو کر رہ جاتے ہیں یہاں تک کہ ہر شخص علانیہ منکرات ومعاصی کا ارتکاب کرنے لگتا ہے اور اپنی فطرت سلیمہ کو مسخ کرلیتا ہے یہی حال قوم لوط کا تھا۔