طس ۚ تِلْكَ آيَاتُ الْقُرْآنِ وَكِتَابٍ مُّبِينٍ
طس، یہ آیتیں ہیں قرآن کی (یعنی واضح) اور روشن کتاب کی۔
تفسیر وتشریح۔ (١) یہ سورۃ بھی مکی ہے اور مکی عہد کی وسطی تنزیلات سے ہے جو پرآشوب عہد ہے اسدور میں نبی اور قرآن پر طرح طرح کے الزام لگائے جارہے تھے اور قرآن کو تعلیم کو بے اثر کرنے کے لیے اس کو شاعری، کہانت، اساطیرالاولین وغیرہ کہا جارہا تھا اس لیے اس عہد کو تنزیلات خصوصا رسالت ووحی کی صداقت کے بیان پر مشتمل ہیں اور ساتھ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی تشفی دی گئی ہے اور مخالفین کو انجام بد سے ڈرایا گیا ہے۔ (الف) اس سورۃ میں بھی یہ وضاحت کی گئی ہے کہ قرآن کو اللہ نے ہدایت وبشارت بناکربھیجا ہے تاہم اس پر ایمان کی سعادت سے وہی لوگ بہرور ہوں گے جن کے دلوں میں آخرت کا خوف ہے رہے وہ لوگ جو دنیا کے عیش وآرام میں مگن ہیں اور برے اعمال پر ریجھ کر اندھے ہورہے ہیں ان پر قرآن کی نصیحت کارگر نہیں ہوسکتی۔ (ب) پھر اس پر گزشتہ اقوام واشخاص کے واقعات کو تاریخی شہادت کے طور پر پیش کیا ہے ان میں سب سے پہلا نمونہ فرعون کا ہے جس نے آیات ومعجزات دیکھنے کے باوجود حضرت موسیٰ کی بات ماننے سے انکار کردیا یہی حال قوم، ثمود، قوم لوط کا تھا جو بالاآخر سب کے سب ہلاکر دیے گئے۔ (ج) دوسرانمونہ اللہ کے شکر گزار بندوں کا ہے یعنی حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہما السلام جنہوں نے اللہ کی نعمتوں کی شکرگزاری کی اور دنیاوآخڑت کی سعادت سے سرفراز ہوگئے۔ (د) تیسرانمونہ ملکہ سبا کا ہے جو بہت نامور قوم کی حاکم تھی وہ اور اس کی قوم شرک میں مبتلا تھے مگر جب ملکہ کے سامنے حق ظاہرہوگیا تو وہ ضد اور ہٹ دھرمی کے بجائے فورا ایمان لے آئی۔