وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ خِلْفَةً لِّمَنْ أَرَادَ أَن يَذَّكَّرَ أَوْ أَرَادَ شُكُورًا
اور اسی نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے والا بنایا (١) اس شخص کی نصیحت کے لئے جو نصیحت حاصل کرنے یا شکر گزاری کرنے کا ارادہ رکھتا ہو۔
(١٥)، ملکوت السماوات۔ کے ان اجرام عظیمہ کو دیکھوجن کے مرئیات مدہشہ سے یہ سطح نیلگوں ادارک انسانی کاسب سے بڑا منظر تحیر ہے یہ عظیم الشان قہرمان تجلی جو روز ہمارے سروں پر چمکتا ہے جس کی فیضان بخشی حیات تمیز قرب وبعید سے ماوراء ہے جس کاجذب وانجذاب کائنات عالم کے لیے مرکز قیام ہے جس کاسرچشمہ ضیاء ونوراجسام سماویہ کے لیے تنہا وسیلہ وتنویر ہے اور جس کا قہر حرارت کسی تجلی گاہ حقیقی کاسب سے بڑا عکس وظلال ہے غور کرو، اپنے اندر حقیقت اسلامی کی کیسی موثر شہادت رکھتا ہے جس کی جبروت وعظمت کے آگے تمام کائنات عالم کاسرجھکا ہوا ہے کیسے مسلم شعار انہ انکسار کے ساتھ فاطر السماوات کے آگے سربہ سجود ہے کہ ایک لمحے ایک عشر دقیقہ کے لیے بھی اپنے اعمال وافعال کے مقرر کردہ حدود سے باہر قدم نہیں رکھ سکتا۔ قرآن میں لفظ بروج دو اور مقامات پر استعمال ہوا ہے، دیکھیے سورۃ الحجر آیت ١٦ اور سورۃ البروج آیت ١۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا بروج سے مراد دوبارہ منازل ہیں جو علمائے فلکین نے دورہ شمس کے انضباط کے لیے مقرر کی ہیں یا یہ لفظ لغوی معنی میں استعمال ہوا ہے اور مقصود بڑے بڑے ستارے ہیں جو بحر وبر کی ظلمتوں میں مسافروں کی رہنمائی کرتے ہیں۔ ان بارہ برجوں کی تقسیم سب سے پہلے اہل بابل نے کی پھر سریانی قوم ان سے متعارف ہوئیں اور بالاآخر یونانیوں نے انہیں اختیار کرلیا، جاہلیت میں عرب ان بارہ منزلوں سے متعارف نہ تھے، چنانچہ تبریزی نے ابوالعلا کا قول نقل کیا ہے، لم تکن العرب تعرفھا فی القدیم۔ اس بنا پر متاخرین میں سے محققین نے لکھا ہے کہ ان سے مراد وہ مستحکم خطے ہیں جن میں سے ہر ایک کی سرحدیں دوسرے سے الگ ہیں اور ان میں سے ایک خطے کو عبور کرکے دوسرے خطے میں چلاجانا نہایت مشکل ہے یا وہ سرحدیں مراد ہیں جن سے آگے شیاطین کا گزر نہیں ہوسکتا بہرحال ان سے مقصود یہ ہے کہ وحی الٰہی شیاطین کی دراندازیوں سے محفوظ رہے۔ واللہ اعلم۔ مفصل بحث کے لیے ترجمان القرآن جلد دوم تفسیر سورۃ الحجر ملاحظہ ہو۔