يَوْمَ يَرَوْنَ الْمَلَائِكَةَ لَا بُشْرَىٰ يَوْمَئِذٍ لِّلْمُجْرِمِينَ وَيَقُولُونَ حِجْرًا مَّحْجُورًا
جس دن یہ فرشتوں کو دیکھ لیں گے اس دن ان گناہگاروں کو کوئی خوشی نہ ہوگی (١) اور کہیں گے یہ محروم ہی محروم کئے گئے (٢)
(٦) آدم (علیہ السلام) کی اولاد دو کی محکوم نہیں ہوسکتی وہ ایک سے لے گی دوسرے کوچھوڑے گی، ایک سے جڑے گی دوسرے سے کٹے گی پھر مومن کی اقلیم دل کس کی بادشاہت قبول کرے گی، دنیا اور اور اس کی بادشاہیاں فانی ہیں ان کے جلال وجبروت کو ایک دن مٹنا ہے خدائے منتقم وقہار کے بھیجے ہوئے فرشتے ہائے عذاب انقلاب وتغیرات کے حربے لے کر اترنے والے ہیں ان بادشاہوں کے قلعے مسمار ہوجائیں گے ان کی تلواریں کند ہوجائیں گے ان کے خزانے کام نہ آئیں گے ان کی طاقتیں نیست ونابود کردی جائیں گی ان کا تاج غرور سر سے اتر جائے گا ان کا تخت جلال وعظمت واژگوں نظر آئے گا۔ آیت ٢١، ٢٢ میں ان کے اس اعتراض کا جواب دیا جو کہتے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ فرشتہ نذیر (ڈرانے والا) بن کرکیوں نہیں آیا؟ اس کے جواب میں فرمایا کہ یہ سنت الٰہی کے خلاف ہے کہ انسانوں کو آگاہ کرنے کے لیے فرشتے بھیجے جائیں اگر ہم فرشتہ بھیجتے تو وہ بھی مردانہ (انسانی) شک میں ہی ظاہر ہوتا دوراصل بات یہ ہے کہ فرشتے یا تو عذاب کے موقع پر نازل ہوتے ہیں اور یا پھر قیامت کے دن نازل ہوں گے اس لیے ان کایہ مطالبہ سراسر غلط ہے پھر تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جو لوگ آج پیغمبر کی تکذیب کررہے ہیں قیامت کے دن ان کی حسرت قابل دید ہوگی، اور دنیا میں تو یہ لوگ دعوت حق کو دبانے کے لیے ایک دوسرے کے معاون بنے ہوئے ہیں مگر قیامت کے دن ایک دوسرے پر لعنت کریں گے۔