لَّا تَجْعَلُوا دُعَاءَ الرَّسُولِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاءِ بَعْضِكُم بَعْضًا ۚ قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنكُمْ لِوَاذًا ۚ فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
تم اللہ تعالیٰ کے نبی کے بلانے کو ایسا بلاوا نہ کرلو جیسا کہ آپس میں ایک دوسرے سے ہوتا ہے تم میں سے انھیں اللہ خوب جانتا ہے جو نظر بچا کر چپکے سے سرک جاتے ہیں (١) سنو جو لوگ حکم رسول کی مخالفت کرتے ہیں انھیں ڈرتے رہنا چاہیے کہ کہیں ان پر کوئی زبردست آفت نہ آپڑے یا انھیں دردناک عذاب نہ پہنچے۔
(46) یہاں سے خصوصیت کے ساتھ جماعتی نظم وضبط کاسلسلہ شروع ہوا ہے اور مخلص مومنین پر ان قواعد وضبواط کی پابندی لازم قرار دی ہے۔ (الف) اجتماعی امور میں امیر جماعت کی اجازت کے بغیر مجلس میں اٹھ کر چلے جانا مجلس کو برخاست کرنا جائز نہیں، یہ منافقین کا شیوہ ہے کہ اجتماعی امور میں صرف حاضری لگوانے کی غرض سے آجاتے ہیں پھر موقع پر کھسک جاتے ہیں نیز حکم دیا کہ مخاطبت کے وقت حضور کے آداب وعظمت کاپورا پورا خیال رکھو، عام لوگوں کی طرح، یا محمد، وغیرہ کہہ کرخطاب نہ کرو بلکہ یا، رسول اللہ، یانبی اللہ، جیسے تعظیمی القاب سے پکارو، دیکھو، پیغمبر (علیہ السلام) کے حکم کی نافرمانی پر دنیا میں کسی آفت کا شکار ہوسکتے ہیں ایسے لوگوں کو چاہیے کہ آخرت میں دردناک عذاب میں مبتلا ہونے سے بچیں۔ مولانا آزاد ان آیات کے تحت لکھتے ہیں، سورت کے آخر میں پھر اطاعت رسول پر زور دیا ہے کیونکہ بغیر ان کے احکام وقوانین کے انقیاد کی سچی روح پیدا نہیں ہوسکتی تھی پیغمبر اسلام جب کبھی کسی اہم معاملے کے لیے لوگوں کو جمع کرتے تو منافق دکھاوے کے لیے آتے پھر نظر بچا کے کھسک جاتے فرمایا مومنوں کایہ شیوہ نہیں انہیں جب کسی اہم معاملے کے لیے طلب کیا جائے جوجماعت وامت کی مصلحت کا معاملہ ہے تو چاہیے کہ پوری طرح جی لگا کے اس میں حصہ لیں اور جب تک معاملہ انجام نہ پاجائے جلسے سے اٹھنے کا نام نہ لیں، ہاں اگر کوئی ایسی ہی مجبوری پیش آگئی ہو تو اٹھ سکتے ہیں مگر نظر بچا کے نہیں بلکہ رخصت لے کر، پھر متنبہ کیا کہ اللہ تعالیٰ کے رسول کے بلانے کو ویسا بلانا نہ سمجھو جیسا کہ آپس میں ایک دوسرے کو بلاتے ہو اس کی ہر صدا تمہارے لیے قانون ہے اور ہر بلاوا واجب التعمیل۔ یہاں سے یہ بات بھی معلوم ہوگئی کہ جو شخصیت جماعت کی ہدایت وقیادت کا مرکز ہو، ضروری ہے کہ اس کی صدائیں احترام کے ساتھ سنی جائیں ورنہ نظم جماعت درہم برہم ہوجائے گا۔