وَيَقُولُونَ آمَنَّا بِاللَّهِ وَبِالرَّسُولِ وَأَطَعْنَا ثُمَّ يَتَوَلَّىٰ فَرِيقٌ مِّنْهُم مِّن بَعْدِ ذَٰلِكَ ۚ وَمَا أُولَٰئِكَ بِالْمُؤْمِنِينَ
اور کہتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ اور رسول پر ایمان لائے اور فرماں بردار ہوئے پھر ان میں سے ایک فرقہ اس کے بعد بھی پھر جاتا ہے۔ یہ ایمان والے ہیں (ہی) نہیں (١)۔
(٣٧) آیت ٤٧ سے ان منافقین کا تذکرہ شروع کیا ہے جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان کا دعوی تو کرتے ہیں مگر عملا خود ہی اپنے دعوی کی تکذیب کرتے ہیں کہ جب انہیں اللہ اور اس کے رسول کے فیصلہ کے سامنے جھک جانے کو کہا جاتا ہے تو وہ اطاعت سے روگردانی کرلیتے ہیں لہذا ایسے لوگوں کے اپنے دعوائے ایمان جھوٹے ہیں ان کے اس طرز عمل سے معلوم ہوتا ہے کہ یاتویہ لوگ اپنے اس منافقانہ طرز عمل سے مسلمانوں کودھوکہ دینا چاہتے ہیں اور ان کے دلوں میں شکوک وشبہات سمائے ہوئے ہیں اور یا انہیں اسلامی عدالت سے عدل وانصاف کی توقع نہیں، بہرحال یہ لوگ ظالم ہیں اگر یہ لوگ حقیقتا مومن ہوتے تو اسلامی عدالت کے فیصلہ پر سمع وطاعت کا اظہار کرتے اور فلاح وفوز کی راہ اختیار کرتے۔ مولانا آزاد آیت نمبر ٧٤ تا ٤٩ کے تحت لکھتے ہیں۔ آیت ٧٤ میں ان لوگوں کی حالت بیان کی ہے جنہوں نے زبان سے تو ایمان کا اقرار کیا تھا لیکن دلوں میں اترا نہیں تھا وہ اپنے اقرار وادعا میں پورے مومن تھے مگر عمل میں پورے منکر، قرآن مجید نے انہیں منافق کے لقب سے یاد کیا ہے اور سورۃ توبہ کی تشریحات میں اس کی تفصیلات گزرچکی ہیں۔ یہاں ان لوگوں کے مومن ہونے کی نفی کی ہے جو زبان سے تو اطاعت حق کا اقرار کریں لیکن عمل کایہ حال ہو کہ وقت پر صاف رخ پھیر لیں۔ آیت ٤٩ میں فرمایا اگر کوئی قضیہ ایسا ہوتا ہے جس میں وہ اپنے کو برسر حق پاتے ہیں تو فورا پیغمبر اسلام کے سامنے اپنا معاملہ پیش کردیتے ہیں کیونکہ سمجھتے ہیں یہاں کا فیصلہ حق وانصاف کا فیصلہ ہوگا اور اس قضیے میں انصاف ہمارے ساتھ ہے لیکن جن قضیوں میں انصاف کا تقاضا ان کے خلاف ہوتا ہے ان میں پیغمبر اسلام کے محاکمے سے ہمیشہ بچنا چاہیں گے کیونکہ سمجھتے ہیں یہاں کا فیصلہ ان کی غرض مندی کے لیے مفید نہیں ہوسکتا۔