أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يُزْجِي سَحَابًا ثُمَّ يُؤَلِّفُ بَيْنَهُ ثُمَّ يَجْعَلُهُ رُكَامًا فَتَرَى الْوَدْقَ يَخْرُجُ مِنْ خِلَالِهِ وَيُنَزِّلُ مِنَ السَّمَاءِ مِن جِبَالٍ فِيهَا مِن بَرَدٍ فَيُصِيبُ بِهِ مَن يَشَاءُ وَيَصْرِفُهُ عَن مَّن يَشَاءُ ۖ يَكَادُ سَنَا بَرْقِهِ يَذْهَبُ بِالْأَبْصَارِ
کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ بادلوں کو چلاتا ہے، پھر انھیں ملاتا ہے پھر انھیں تہ بہ تہ کردیتا ہے، پھر آپ دیکھتے ہیں ان کے درمیان مینہ برستا ہے وہی آسمانوں کی جانب اولوں کے پہاڑ میں سے اولے برساتا ہے، پھر جنہیں چاہے ان کے پاس انھیں برسائے اور جن سے چاہے ان سے انھیں ہٹا دے بادلوں ہی سے نکلنے والی بجلی کی چمک ایسی ہوتی ہے کہ گویا اب آنکھوں کی روشنی لے چلی۔
(٣٠) یزجی سحابا۔۔۔ از جاء۔ کے معنی کسی چیز کو آہستہ آہستہ چلانے کے ہیں۔ الازجاء۔ السوق قلیلا قلیلا۔ انی اتیتک من اھلی ومن وطنی، ازجی حشاشہ نفس بانھا رمق۔ چونکہ بادل کی چادریں آہستہ آہستہ آتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں اس لیے بلاغت چاہتی تھی کہ اسی لفظ سے اسے تعبیر کیا جائے افسوس ہے کہ اردوفارسی کے مترجموں نے الفاظ کی لغوی خصوصیات کی بہت کم رعایت کی ہے چنانچہ اسکاترجمہ بھی محض رواں کردن، اور چلانا، اور ہنکانا، کیا ہے اور اس طرح اصل لفظ کی لغوی خصوصیت گم ہوگئی ہے۔ (٣٠) یزجی سحابا۔۔۔ از جاء۔ کے معنی کسی چیز کو آہستہ آہستہ چلانے کے ہیں۔ الازجاء۔ السوق قلیلا قلیلا۔ انی اتیتک من اھلی ومن وطنی، ازجی حشاشہ نفس بانھا رمق۔ چونکہ بادل کی چادریں آہستہ آہستہ آتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں اس لیے بلاغت چاہتی تھی کہ اسی لفظ سے اسے تعبیر کیا جائے افسوس ہے کہ اردوفارسی کے مترجموں نے الفاظ کی لغوی خصوصیات کی بہت کم رعایت کی ہے چنانچہ اسکاترجمہ بھی محض رواں کردن، اور چلانا، اور ہنکانا، کیا ہے اور اس طرح اصل لفظ کی لغوی خصوصیت گم ہوگئی ہے۔ (٣١)۔ آیت میں، یجعلہ رکاما، کے لفظ ہیں۔ اور رکم، کے معنی ہیں چیزوں کا تہ درتہ ہوجانا اور مل جل کر ایک ہوجانا، دونوں مفہوم شامل ہیں۔ یقال : رکم الشئی یرکمہ رکما، ای جمعہ والقی بعضہ علی بعض، والرکمۃ الطین المجموع (ابن سیدہ)۔ (٣٢(۔ قال الاخفش : ان من فی من جبال، وفی، من برد، زائدہ، والجبال والبرد فی موضع نصب، ای ینزل من السماء بردایکون کالجبال (کشاف)۔ (٣٣)۔ آیت ٤٣ میں وہ استدلال ہے جسے ہم نے اپنی جدیدہ تدوینات میں، برہان ربوبیت، سے تعبیر کیا ہے اور یہاں خصوصیت کے ساتھ اس حقیقت پر توجہ دلائی ہے جسے ہم نظام ربوبیت کے عنوان سے تفسیر سورۃ فاتحہ میں لکھ چکے ہیں ضروری ہے کہ اس موقع پر اس مبحث کا مطالعہ تازہ کرلیاجائے۔