وَلْيَسْتَعْفِفِ الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ نِكَاحًا حَتَّىٰ يُغْنِيَهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ ۗ وَالَّذِينَ يَبْتَغُونَ الْكِتَابَ مِمَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ فَكَاتِبُوهُمْ إِنْ عَلِمْتُمْ فِيهِمْ خَيْرًا ۖ وَآتُوهُم مِّن مَّالِ اللَّهِ الَّذِي آتَاكُمْ ۚ وَلَا تُكْرِهُوا فَتَيَاتِكُمْ عَلَى الْبِغَاءِ إِنْ أَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِّتَبْتَغُوا عَرَضَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۚ وَمَن يُكْرِههُّنَّ فَإِنَّ اللَّهَ مِن بَعْدِ إِكْرَاهِهِنَّ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اور ان لوگوں کو پاک دامن رہنا چاہیے جو اپنا نکاح کرنے کا مقدور نہیں رکھتے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ انھیں اپنے فضل سے مالدار بنا دے، تمہارے غلاموں میں سے جو کوئی کچھ تمہیں دے کر آزادی کی تحریر کرانی چاہے تو تم ایسی تحریر انھیں کردیا کرو اگر تم کو ان میں کوئی بھلائی نظر آتی ہو اور اللہ نے جو مال تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے انھیں بھی دو، تمہاری جو لونڈیاں پاک دامن رہنا چاہتی ہیں انھیں دنیا کی زندگی کے فائدے کی غرض سے بدکاری پر مجبور نہ کرو اور جو انھیں مجبور کر دے تو اللہ تعالیٰ ان پر جبر کے بعد بخش دینے والا اور مہربانی کرنے والا ہے۔
(٢١) آیت ٣٣ میں ایک بہت بڑے انسانی حقوق کا مسئلہ حل کیا جاتا ہے جو عالمی برداری میں آئینی حیثیت اختیار کرچکا تھا یعنی غلاموں کی آزادی اور اس کو معادرے میں مساوی حقوق دلانے کے لیے پہلا قدم کہ جو غلام، ہنر مندہوں اور محنت کرکے آسان قسطوں پر اپنی قیمت ادا کرسکتے ہوں ان کو رہا کردیا جائے اور مقررہ قسطوں پر ان سے قیمت وصول کرلی جائے عربی میں اس شرط پر رہائی کا مکاتب کہا جاتا ہے قرآن نے غلاموں کی رہائی کے لیے تدریجی قدم اٹھایا ہے کیونکہ اس وقت معاشی اور معاشرتی نظام ان غلاموں پر چل رہا تھا، لہذا اگر یکدکم حقوق ملکیت ساقط کردیے جاتے تو معیشت تباہ ہوجاتی اس ترغیب وتلقین سے لوگوں کو اس بات پر ابھارا کہ طوعا وکرہا غلاموں کو آزاد کردیں چنانچہ صحابہ پر اس خلاق تلقین کا اس قدر گہرا اثر ہوا کہ لوگ کثرت سے غلام آزاد کرنے لگ گئے اور خلفائے راشدین کے زمانہ اختتام تک تقریبا تمام موجود غلام رہا ہوچکے تھے اور آئندہ کے لیے صرف جنگی قیدیوں کو غلام بنانے کی صرف اس صورت میں اجازت دی کہ ان کی حکومت قیدیوں کاتبادلہ نہ کرے یا معاوضہ ادا کرکے انکو چھڑانے پر راضی نہ ہوں لیکن ساتھ ہی اسلامی معاشرہ میں ان کو اس قدر سہولتیں دی گئیں کہ سوسائٹی میں ان کے حقوق محفوظ کردیے گئے جن کی تفصیلات کتب احادیث میں مذکور ہیں اور محدثین نے غلاموں کے احکام بیان کرنے کے لیے اپنی کتابوں میں مستقل عنوان قائم کیے ہیں جو تدریجا غلاموں کے متعلق اسلامی آئین میں ترمیم پر منتج ہوتے ہیں، مولانا آزاد اس آیت کے تحت لکھتے ہیں : اگر غلام اور آقا میں اس طرح کا سمجھوتا ہوجاتا تھا کہ غلام محنت مزدوری کرکے یا کسی دوسرے ذریعہ سے ایک خاص رقم آقا کو ادا کردے گا اور اس کے معاوضہ میں وہ اسے آزاد کردے گا تو اسے مکاتبہ کہتے تھے یعنی آپس میں آزادی کانوشتہ ہوگیا، قرآن مجید نے غلامی کی رسم مٹانے کے لیے جو تدریجی اصلاحات شروع کی تھیں ان میں ایک اصلاح یہ بھی تھی کہ مکاتب کی درخواست منظور کرلینے کا حکم دیا۔ چنانچہ یہاں آیت ٣٣ میں ان کے نکاح کا حکم دیتے ہوئے اس بات پر بھی زور دیا اور فرمایا نہ صرف ان کی درخواست منظور کرلینا چاہیے بلکہ اس کے لیے انہیں مالی امداد بھی دینی چاہیے کہ مال کو، مال اللہ، کہہ کر یہ حقیقت یاد دلادی کہ مال جو کچھ ہے اللہ ہی کا دیا ہوا ہے پس اس میں اس کے بندوں کا بھی حق ہے۔ کلدانیوں، ہندؤں اور رومیوں کی طرح عربوں میں بھی یہ طریقہ عام تھا کہ لونڈیوں سے پیشہ کراتے تھے اور ان کی کمائی کھاتے تھے۔ ان کے نکاح کا حکم دیتے ہوئے آیت ٣٣ میں اس طرف بھی اشارہ کردیا کہ اس فساد کا بلکل انسداد ہوجائے۔