سورة البقرة - آیت 273

لِلْفُقَرَاءِ الَّذِينَ أُحْصِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ لَا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْبًا فِي الْأَرْضِ يَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ أَغْنِيَاءَ مِنَ التَّعَفُّفِ تَعْرِفُهُم بِسِيمَاهُمْ لَا يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا ۗ وَمَا تُنفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

صدقات کے مستحق صرف وہ غربا ہیں جو اللہ کی راہ میں روک دیئے گئے، جو ملک میں چل پھر نہیں سکتے (١) نادان لوگ ان کی بے سوالی کی وجہ سے انہیں مالدار خیال کرتے ہیں، آپ ان کے چہرے دیکھ کر قیافہ سے انہیں پہچان لیں گے وہ لوگوں سے چمٹ کر سوال نہیں کرتے (٢) تم جو کچھ مال خرچ کرو تو اللہ تعالیٰ اس کا جاننے والا ہے۔

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

183: حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ یہ آیت اصحاب صفہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے، یہ وہ صحابہ تھے جنہوں نے اپنی زندگی علم دین حاصل کرنے کے لئے وقف کردی تھی اور آنحضرتﷺ کے پاس مسجد نبوی سے متصل ایک چبوترے پر آپڑے تھے، طلب علم کی وجہ سے وہ کوئی معاشی مشغلہ اختیار نہیں کرسکتے تھے مگر مفلسی کی سختیاں ہنسی خوشی برداشت کرتے تھے کسی سے مانگنے کا سوال نہیں تھا، اس آیت نے بتایا کہ ایسے لوگ امداد کے زیادہ مستحق ہیں جو ایک نیک مقصد سے پوری امت کے فائدے کے لئے مقید ہو کر رہ گئے ہیں اور سختیاں جھیلنے کے باوجود اپنی ضرورت کسی کے سامنے ظاہر نہیں کرتے۔ آیت نمبر 261 سے 274 تک صدقات کی فضیلت اور اس کے احکام بیان ہوئے تھے۔ آگے آیت نمبر 280 تک اس کی ضد یعنی سود کا بیان ہے۔ صدقات انسان کے جذبہ سخاوت کی نشانی ہیں، اور سود بخل اور مال کی محبت کی علامت ہے۔