سورة المؤمنون - آیت 80

وَهُوَ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ وَلَهُ اخْتِلَافُ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور وہی ہے جو جلاتا ہے اور مارتا ہے اور رات دن کے ردو بدل (١) کا مختار بھی وہی ہے۔ کیا تم کو سمجھ بوجھ نہیں (٢)

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

آیت (٨٠) کے چند لفظوں کے اندر قرآن کا ایک بہت بڑا استدلال پوشیدہ ہے۔ جلد نہ گزر جاؤ، اس پر غور کرلو، فرمایا وہی ہے جو جلاتا ہے اور موت طاری کرتا ہے، اور یہ اسی کی کار فرمائی ہے کہ رات دن کے پیچھے آتی رہتی ہے اور دن رات کے پیچھے۔ یہاں اختلاف الیل والنھار کہہ کر اس قانون ہستی کی طرف اشارہ کیا ہے جسے قرآن قانون ازواج سے تعبیر کرتا ہے۔ ہم نے اپنی مقررہ مصطلحات میں اسے قانون تثنیہ کہا ہے۔ یعنی کارخانہ ہستی کے ہر گوشہ میں ہم دیکھتے ہیں یہاں کوئی حقیقت اکہری اور طاق نہیں ہے۔ کسی نہ کسی شکل میں دو دو ہونے کی نوعیت ضرور پائی تجاتی ہے۔ ہر چیز کی تکوین و تشکیل اسی طرح ہوگی کہ دو متماثل اور متقابل نوعیتیں ابھریں گی اور اسی تماثل و تقابل کا تثنیہ ایک مکمل حقیقت کی شکل اختیار کرلے گا۔ مثلا نر کے لیے مادہ، مرد کے لیے عورت، زندگی کے لیے موت، رات کے لیے دن، صبح کے لیے شام، مثبت کے لیے منفی، تکوین کے لیے افسا۔ جس گوشہ میں بھی دیکھو گے ہر حقیقت کے ساتھ اس کا کوئی نہ کوئی مثنی بھی ضرور موجود ہے۔ (ومن کل شیء خلقنا زوجین لعلکم تذکرون) قرآن کا استدلال یہ ہے کہ اگر کارخانہ ہستی کے ہر گوشہ میں دو دو ہونے کی حقیقت کام کر رہی ہے اور یہاں ہستی کی کوئی نمود بغیر اپنے مثنی اور زوج کے نہیں ہے تو پھر تمہیں اس بات پر کیوں تعجب ہوتا ہے کہ انسانی زندگی کی نمود بھی اکہری نہیں ہے دوسری ہے اور دنیوی زندگی کے لیے بھی ایک مثنی ہے، اس کا نام آخرت ہے؟ جس حقیقت کو تم بیس بھیسوں میں دیکھتے ہو اور پہچانتے رہتے ہو اسی کو اکیسیوں بھیس میں دیکھ کر کیوں چونک اٹھتے ہو؟ اسی لیے آیت کا خاتمہ اس پر ہوا کہ (افلا تعقلون) کیونکہ اس معاملہ میں خطاب تعقل سے تھا اور وہی مفقود ہوجاتی ہے۔ اب غور کرو، اس کے بعد کی آیت کسی طرح اس آیت سے مربوط ہوگئی؟ اور اس کی ابتدا میں حرف بل کا آنا کس طرح ٹھیک اپنی جگہ میں بیٹھ گیا؟ (بل قالوا مثل ما قال الاولون۔ قالوا ءاذا متنا وکنا ترابا و عظاما ءانا لمبعوثون؟ مزید تشریح کے لیے دیکھو تفسیر فاتحہ مبحث تسکین حیات۔