أَفَلَمْ يَدَّبَّرُوا الْقَوْلَ أَمْ جَاءَهُم مَّا لَمْ يَأْتِ آبَاءَهُمُ الْأَوَّلِينَ
کیا انہوں نے اس بات میں غور و فکر ہی نہیں کیا (١) بلکہ ان کے پاس وہ آیا جو ان کے اگلے باپ دادوں کے پاس نہیں آیا تھا (٢)۔
آیت (٦٨) پر غور کرو کس طرح قرآن بار بار اس پہلو پر زور دیتا ہے کہ کیا لوگوں نے اس پر تدبر نہیں کیا؟ کیونکہ اس کا سارا مطالبہ تدبر و تعقل ہی سے ہے۔ وہ کہتا ہے سچائی کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ عقل و بصیرت اسے پالے گی اور جہل و کوری اس سے روگرداں رہے گی۔ پس اگر لوگ قرآن میں تدبر و تفکر کریں تو ممکن نہیں کہ اس کی سچائی انہیں گرویدہ نہ کرلے۔ یہاں سے یہ حقیقت بھی واضح ہوگئی کہ قرآن کا مطالبہ غور و فکر کا ہے، نہ کہ تقلید کا۔ پس جو شخص قرآن کے مطالب میں غور و فکر نہیں کرتا وہ اس کا مطالبہ پورا نہیں کرتا اور پھر جب قرآن کے لیے وحی الہی ہے تدبر ضروری ہوا تو کیونکر یہ بات جائز ہوسکتی ہے کہ کسی مجتہد اور امام کی تحقیق میں تدبر ضروری نہ ہو؟ اور اہل علم کے لیے ضروری ہو کہ از روئے تقلید سر اطاعت خم کردیں؟ یہاں تین باتیں فرمائیں۔ کیا انہوں نے قرآن پر غور نہیں کیا؟ اگر غور کرتے تو یقینا حقیقت پا لیتے، کیا انہیں رسول کی معرفت نہ ہوئی؟ اگر ضد اور ہٹ دھرمی سے کام نہ لیں تو اس کی پاکی و صداقت کی معرفت سے کبھی انکار نہیں کرسکتے، پھر کیا یہ سمجھتے ہیں یہ مجنون ہوگیا ہے کہ ایسی باتیں کرنے لگا ہے؟ لیکن کیا راست بازی کے ساتھ یہ کہنے کی جرات کرسکتے ہیں کہ سچ مچ کو وہ مجنون ہے؟ یہاں سے معلوم ہوا کہ دعوت اسلام کی معرفت کی دو راہیں ہیں۔ قرآن میں تدبر کیا جائے، اور صاحب قرآن کی زندگی میں۔