وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْيَمَ وَأُمَّهُ آيَةً وَآوَيْنَاهُمَا إِلَىٰ رَبْوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَمَعِينٍ
ہم نے ابن مریم اور اس کی والدہ کو ایک نشانی بنایا (١) اور ان دونوں کو بلند صاف قرار والی اور جاری پانی (٢) والی جگہ میں پناہ دی۔
آیت (٥٠) میں حضرت مسیح اور ان کی والدہ (کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : (واویناھما الی ربوۃ ذات قرار و معین) ہم نے انہیں ایک مرتفع مقام میں پناہ دی جو بسنے کی اچھی جگہ اور پانی کی فراوانی سے شاداب تھی۔ غالبا اس سے مقصود وادی نیلم کی بالائی سطحح ہے، یعنی مصر کا بالائی حصہ، اناجیل سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح کی پیدائش کے بعد مریم کے شوہر یوسف نے ماں بیٹے کو ساتھھ لیا اور فلسطین سے مصر چلا گیا، چنانچہ حضرت مسیح کا بچپن اور شباب وہیں گزرا۔ جب فلسطین واپس آئے تو جوانی کی عمر تک پہنچ چکے تھے۔ غالبا ان کی زندگی کے اسی واقعہ کی طرف یہاں اشارہ کیا گیا ہے۔ دریائے نیل کے پانی فراوانی اور اس کے سالانہ سیلابوں کی عجیب و غریب نوعیت سرزمین مصر کا ایک امتیازی وصف رہی ہے۔ اس کی آبادی و سیرابی یعنی اس کا ذات و قرار و معین ہونا ضرب المچل کی طرح زباں زد ہوگیا تھا۔ چنانچہ عبرانی کی یہ قدیم مثل آج تک ملتی ہے کہ فلاں ملک میں پانی کی اتنی فراوانی ہے جیسے مصر میں چونکہ یہ مصر کا ایک امتیازی وصف ہوگیا تھا اس لیے اسی وصف سے اسے یاد کیا گیا۔ اس تعبیر میں یہ پہلو بھی پوشیدہ ہے کہ وہ فلسطین جیسا سرسبز ملک ترک کردینے پر مجبور ہوگئے۔ لیکن اللہ کے فضل نے ایسی جگہ پناہ دے دی جو فلسطین ہی کی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ ذت قرار و معین تھی۔ حجرت مریم اس سفر پر کیوں مجبور ہوئیں؟ اناجیل میں اس کا سبب یہ بیانن کیا گیا ہے کہ ہیرودس حاکم شام کے ظلم و تشدد سے، اسے نجومیوں نے پیدائش مسیح خبر دے دی تھی اور وہ چاہتا تھا انہیں قتل کردے، تب فرشتہ نے یوسف کو خواب میں حکم دیا، اٹھ اور بچے اور اس کی ماں کو ساتھ لے کر مصر بھاگ جا۔ (متی : ١٣: ٢) لیکن قرآن نے اس بارے میں کچھ نہیں کہا ہے۔