لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ ۖ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ ۚ فَمَن يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىٰ لَا انفِصَامَ لَهَا ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
دین کے بارے میں کوئی زبردستی نہیں، ہدایت اور دلالت سے روشن ہوچکی ہے (١) اس لئے جو شخص اللہ تعالیٰ کے سوا دوسرے معبودوں کا انکار کر کے اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اس نے مضبوط کڑے کو تھام لیا جو کبھی نہ ٹوٹے گا اور اللہ تعالیٰ سننے والا اور جاننے والا ہے۔
اس اصل عظیم کا اعلان کہ دین و اعتقاد کے معاملہ میں کسی طرح کا جبر و استکراہ جائز نہیں :۔ دین کی راہ دل کے اعتقاد و یقین کی راہ ہے اور اعتقاد، دعوت و موعظت سے پیدا ہوسکتا ہے نہ کہ جبر و استکراہ سے : 1۔ احکام جہاد کے بعد ہی یہ ذکر اس لیے کیا گیا تاکہ واضح ہوجائے کہ جنگ کی اجازت ظلم و تشدد کے انسداد کے لیے دی گئی ہے۔ نہ کہ دین کی اشاعت کے لیے۔ دین کی اشاعت کے لیے۔ دین کی اشاعت کا ذریعہ ایک ہی ہے اور وہ دعوت ہے۔ قریش مکہ کا فتنہ کیا تھا؟ یہ تھا کہ ظلم و تشدد کے ذریعہ دین و اعتقاد کا فیصلہ کرنا چاہتے تھے۔ قرآن نے اس کے خلاف جنگ کا حکم دیا پس جس بات کے خلاف اس نے جنگ کا حکم دیا ہے خود اسی بات کا مرتکب کیونکر ہوسکتا ہے؟