يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّنَ الْبَعْثِ فَإِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِن مُّضْغَةٍ مُّخَلَّقَةٍ وَغَيْرِ مُخَلَّقَةٍ لِّنُبَيِّنَ لَكُمْ ۚ وَنُقِرُّ فِي الْأَرْحَامِ مَا نَشَاءُ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ نُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوا أَشُدَّكُمْ ۖ وَمِنكُم مَّن يُتَوَفَّىٰ وَمِنكُم مَّن يُرَدُّ إِلَىٰ أَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَيْلَا يَعْلَمَ مِن بَعْدِ عِلْمٍ شَيْئًا ۚ وَتَرَى الْأَرْضَ هَامِدَةً فَإِذَا أَنزَلْنَا عَلَيْهَا الْمَاءَ اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ وَأَنبَتَتْ مِن كُلِّ زَوْجٍ بَهِيجٍ
لوگو! اگر تمہیں مرنے کے بعد جی اٹھنے میں شک ہے تو سوچو ہم نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا پھر نطفہ سے پھر خون بستہ سے پھر گوشت کے لوتھڑے سے جو صورت دیا گیا تھا اور وہ بے نقشہ تھا (١) یہ ہم تم پر ظاہر کردیتے ہیں (٢) اور ہم جسے چاہیں ایک ٹھہرائے ہوئے وقت تک رحم مادر میں رکھتے ہیں (٣) پھر تمہیں بچپن کی حالت میں دنیا میں لاتے ہیں تاکہ تم اپنی پوری جوانی کو پہنچو، تم میں سے بعض تو وہ ہیں جو فوت کر لئے جاتے ہیں (٤) اور بعض بے غرض عمر کی طرف پھر سے لوٹا دئیے جاتے ہیں کہ وہ ایک چیز سے باخبر ہونے کے بعد پھر بے خبر ہوجائے (٥) تو دیکھتا ہے کہ زمین بنجر اور خشک ہے پھر جب ہم اس پر بارش برساتے ہیں تو وہ ابھرتی ہے اور پھولتی ہے اور ہر قسم کی رونق دار نباتات اگاتی ہے (٦)۔
پیدائش سے پہلے جنین پر جو مختلف حالتیں طاری ہوتی ہیں ان کی طرف یہاں اشارہ کیا ہے : نطفہ : لغت میں پانی کے ایک قطرے کو کہتے ہیں، چونکہ جنین کی تکوین کی ابتدائی مادہ پانی کے چند قطروں کی طرح ہوتا ہے اس لیے اسے نطفہ کہنے لگے۔ علقۃ: جمے ہوئے خون کے لوتھڑے کو بھی کہتے ہیں اور جونک کو بھی۔ مضغۃ: کے معنی ہیں گوشت کا ایک ٹکڑا۔ مخلقۃ: یعنی اس ٹکڑے میں شکل و صورت کی شان کا پیدا ہوجانا۔ غیر مخلقۃ: بگڑ کے رہ جانا اور متشکل نہ ہونا۔ پیدائش کے بعد کی تین حالتیں بیان کی ہیں : طفولیت، رشد و عقل، ارذل العمر، یعنی بڑھاپا۔ بڑھاپے کو عربی میں زرزل العمر کہتے ہیں کیونکہ اس عمر میں تمام قوتیں جواب دے دیتی ہیں اور طاقت کے بعد پھر کمزوری و بے حسی کا عہد طاری ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد اس کی تعلیل واضح کردی کہ یہ رشد و عقعل کے بعد پھر طفولیت کی نادانی و بے عقلی کی طرف لوٹ جانا ہے، گویا انسان کی عمر طفولیت کی نادانی سے شروع ہوتی ہے اور بتدریج بڑھتے بڑھتے رشد و عقل کے بلوغ و کمال تک پہنچ جاتی ہے۔ اس کمال کے بعد پھر زوال شروع ہوجاتا ہے اور جس حالت سے عمر چلی تھی اسی کی طرف لوٹ آتی ہے۔ قرآن نے جابجا انسان کی ایک ذہنی حالت کو جدال فی اللہ بغیر علم سے تعبیر کیا ہے، تشریح اس کی آخری نوٹ میں ملے گی۔ قرآن نے ہر جگہ یہ حقیقت واضح کی ہے کہ ایمان امیدا اور یقین ہے اور کفر شک اور مایوسی ہے اور وہ بار بار اس بات پر زور دیتا ہے کہ مایوس نہ ہو۔ امید کا چراغ روشن رکھو، ہر حال میں امیدوار فضل و سعادت رہو، یہی مقتضائے ایمان ہے، یہی سرچشمہ زندگی ہے، اسی سے تمام دنیوی اور اخروی کامرانیوں کی دولت حاصل ہوسکتی ہے۔ اگر مایوس ہوگئے، اگر مایوسی پرچھائیں بھی دل پر پڑنے دی تو پھر یہ زندگی کا خاتمہ ہوگا، دنیا کی نامرادی ہوگی، عاقبت کا خسران ہوگا، وہ کہتا ہے زندگی امید ہے اور موت مایوسی ہے، جونہی تم نے امید کی شمع جلائی زندگی و سعادت کے دائرہ میں آگئے۔ جونہی یہ شمع بجھی موت اور نامرادی کی ظلمت میں گر گئے۔ غور کرو قرآن جو کچھ کہتا ہے کیا اس کے علاوہ بھی کچھ اس بارے میں کہا جاسکتا ہے ؟ کیا انسانی زندگی کی ساری کامرانیوں اور فتح مندیوں کی اصل و اساس امید ہی نہیں ہے ؟ اور کیا ناامیدی سے بڑھ کر کوئی موت کا سرچشمہ ہوسکتا ہے ؟