سورة الأنبياء - آیت 79

فَفَهَّمْنَاهَا سُلَيْمَانَ ۚ وَكُلًّا آتَيْنَا حُكْمًا وَعِلْمًا ۚ وَسَخَّرْنَا مَعَ دَاوُودَ الْجِبَالَ يُسَبِّحْنَ وَالطَّيْرَ ۚ وَكُنَّا فَاعِلِينَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

ہم نے اس کا صحیح فیصلہ سلیمان کو سمجھا دیا (١) ہاں ہر ایک کو ہم نے حکم و علم دے رکھا تھا اور داؤد کے تابع ہم نے پہاڑ کردیئے تھے جو تسبیح کرتے (٢) تھے اور پرند (٣) بھی ہم کرنے والے ہی تھے (٤)۔

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

آیت (٧٩) میں یسبحن کے دو مطلب ہوسکتے ہیں ایک جو ان من شیء الا یسبح بحمدہ میں ہے۔ دوسرا یہ کہ جب حضرت داؤد حمد الہی کے نغمے گاتے تھے تو سماں بندھ جاتا تھا اور چٹانیں تک وجد میں آجاتی تھیں۔ حضرت داؤد بڑے ہی خوش آواز تھے، وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے عبرانی موسیقی مدون کی اور مصری اور ہابلی مزامیر کو ترقی دے کر نئے نئے آلات ایجاد کیے۔ تورات اور روایت یہود سے معلوم ہوتا ہے کہ جب وہ پہاڑوں کی چوٹیوں پر بیٹھ کر حمد الہی کے ترانے گاتے اور اپنا برطب بجاتے تو شجر و حجر جھومنے لگتے تھے۔ روایات تفسیر سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ پرندوں کی تسخیر کو بھی دونوں باتوں پر محمول کیا جاسکتا ہے۔ اس پر بھی کہ ہر طرح کے پرند ان کے محل میں جمع ہوگئے تھے اور اس پر بھی کہ ان کی نغمہ سرائیوں سے متاثر ہوتے تھے۔ کتاب زبور دراصل ان گیتوں کا مجمعہ ہے جو حضرت داؤأد نے الہام الہی سے نظم کی تھیں َ ہم نے نہیں اپنی رحمت کے سایہ میں۔ جس وقت تک آتشیں اسلحہ ایجاد نہیں ہوا تھا جنگ میں حفاظت کا بڑا ذریعہ آہنی لباس کا استعمال تھا یعنی زرہ کا۔