سورة الأنبياء - آیت 47

وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا ۖ وَإِن كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنَا بِهَا ۗ وَكَفَىٰ بِنَا حَاسِبِينَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

قیامت کے دن ہم درمیان میں لا رکھیں گے ٹھیک ٹھیک تولنے والی ترازو کو۔ پھر کسی پر کچھ ظلم بھی نہ کیا جائے گا۔ اور اگر ایک رائی کے دانے کے برابر بھی عمل ہوگا ہم اسے لا حاضر کریں گے، اور ہم کافی ہیں حساب کرنے والے (١)۔

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

آیت (٤٧) میں یہ حقیقت واضح کی ہے کہ فطرت کا ترازو بڑا ہی دقیقہ سنج ہے۔ ایک ذرہ ہے ایک ذرہ بھی اس کی تول میں کم نہیں ہوسکتا۔ کوئی عمل کتنا ہی حقیر ہو مثلا تم نے کسی مصیبت زدہ پر ہمدردی کی ایک اچٹتی ہوئی نظر ڈالی دی، راہ چلتے ایک پتھر ہٹا دیا، ایک پیاسی چیونٹی کے آگے پانی کا قطرہ ٹپکا دیا، مگر ضروری ہے کہ اس کے وزن میں آجائے۔ ایسا کبھی نہیں ہوسکتا کہ رائگاں جائے۔ اور تم خود اپنی زندگی ہی میں دیکھ لو۔ فطرت کے قانون مجازات کی دقائق اندیشوں کا کیا حال ہے؟ تم نے ایک پل کے لیے کسی پر ہمدردی کی نظر ڈالی اور معا تمہارے اندر حسن اخلاق کا ایک نقش جم گیا، تم نے کسی جانور پر بھی بے رحمی کی نگاہ ڈالی اور تمہارے آئینہ اخلاق میں قساوت کا بال پڑگیا۔ تمہاری کوئی چھوٹی سے چھوڑی بات بھی تمہیں بدلہ دیے بغیر نہیں رہ سکتی اور بدلہ ٹھیک ٹھیک نپا تلا ہوتا ہے۔ رائی برابر بھی ادھر ادھر نہیں۔