وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ ۖ لِمَنْ أَرَادَ أَن يُتِمَّ الرَّضَاعَةَ ۚ وَعَلَى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۚ لَا تُكَلَّفُ نَفْسٌ إِلَّا وُسْعَهَا ۚ لَا تُضَارَّ وَالِدَةٌ بِوَلَدِهَا وَلَا مَوْلُودٌ لَّهُ بِوَلَدِهِ ۚ وَعَلَى الْوَارِثِ مِثْلُ ذَٰلِكَ ۗ فَإِنْ أَرَادَا فِصَالًا عَن تَرَاضٍ مِّنْهُمَا وَتَشَاوُرٍ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا ۗ وَإِنْ أَرَدتُّمْ أَن تَسْتَرْضِعُوا أَوْلَادَكُمْ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِذَا سَلَّمْتُم مَّا آتَيْتُم بِالْمَعْرُوفِ ۗ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
مائیں اپنی اولاد کو دو سال کامل دودھ پلائیں جن کا ارادہ دودھ پلانے کی مدت بالکل پوری کرنے کا ہو (١) اور جن کے بچے ہیں ان کے ذمہ ان کا روٹی کپڑا ہے جو مطابق دستور کے ہو (٢) ہر شخص اتنی ہی تکلیف دیا جاتا ہے جتنی اس کی طاقت ہو ماں کو اس بچے کی وجہ سے یا باپ کو اس کی اولاد کی وجہ سے کوئی ضرر نہ پہنچایا جائے (٣) وارث پر بھی اسی جیسی ذمہ داری ہے، پھر اگر دونوں (یعنی ماں باپ) اپنی رضامندی سے باہمی مشورے سے دودھ چھڑانا چاہیں تو دونوں پر کچھ گناہ نہیں جب کہ تم ان کو مطابق دستور کے جو دینا ہو وہ ان کے حوالے کر دو (٤) اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور جانتے رہو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کی دیکھ بھال کر رہا ہے۔
جب عورت کو طلاق دے دی گئی اور اس نے عدت کا زمانہ پورا کرلیا تو پھر اسے اختیار ہے جس جس سے چاہے ٹھیک طریقے پر نکاح کرے۔ نہ تو اسے دوسرے نکاح سے روکنا چاہیے، نہ اس کی پسند کے خلاف اس پر زور ڈالنا چاہیے، نہ اس بات پر ناراض ہونا چاہیے۔ چونکہ اس بارے میں مردوں کی طرف سے زیادتی کا اندیشہ تھا اس لیے خصوصیت کے ساتھ اس پر زور دیا گیا اور فرمایا، اگر تم اللہ پر اور آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اس حکم کی نافرمانی سے بچو۔ طلاق کی صورت میں ایک نہایت اہم سوال چھوٹے بچوں کی پرورش کا تھا۔ ماں باپ کی علیحدگی کے بعد دودھ پیتے بچوں کی پرورش کا تھا۔ ماں باپ کی علیحدگی کے بعد دودھ پیتے بچوں کی پرورش کا انتظام کیا ہو؟ اس بارے میں طرح طرح کی خرابیوں کا اندیشہ تھا۔ پس ان کا سدباب کردیا گیا۔ بڑا محل نقصان پہنچنے کا ماں تھی کہ طلاق کی وجہ سے جدا ہوگئی تھی، اور محبت مادری کی وجہ سے مجبور تھی، کہ بچے کو دودھ پلائے۔ پس حکم دیا گیا کہ دودھ پلانے تک اس کا خرچ باپ کے ذمے ہے اور دودھ پلانے کی مدت دو برس ہے۔ ساتھ ہی اس بارے میں دو بنیادی قاعدے بھی واضح کردیے "نہ تو ماں کو اس کو بچے کی وجہ سے نقصان پہنچایا جائے اور نہ باپ کو" اور "کسی پر اس کی وسعت سے زیادہ خرچ کا بار نہیں"۔