الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ ۗ وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا إِلَّا أَن يَخَافَا أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ ۗ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا ۚ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ
یہ طلاقیں دو مرتبہ (١) ہیں پھر یا تو اچھائی سے روکنا (٢) یا عمدگی کے ساتھ چھوڑ دینا (٣) اور تمہیں حلال نہیں تم نے انہیں جو دیا ہے اس میں سے کچھ بھی لو، ہاں یہ اور بات ہے کہ دونوں کو اللہ کی حدیں قائم نہ رکھ سکنے کا خوف ہو اس لئے اگر تمہیں ڈر ہو کہ دونوں اللہ کی حدیں قائم نہ رکھ سکیں گے تو عورت رہائی پانے کے لئے کچھ دے ڈالے، اس پر دونوں پر گناہ نہیں (٤) یہ اللہ کی حدود ہیں خبردار ان سے آگے نہیں بڑھنا اور جو لوگ اللہ کی حدوں سے تجاوز کر جائیں وہ ظالم ہیں۔
طلاق دینے کا طریقہ یہ ہے کہ وہ تین مرتبہ، تین مجلسوں میں، تین مہینوں میں، اور ایک کے بعد ایک واقع ہوتی ہے۔ اور وہ حالت جو قطعی طور پر رشتہ نکاح قطع کردیتی ہے، تیسری مجلس، تیسرے مہینے اور تیسری طلاق کے بعد وجود میں ٓتی ہے۔ اس وقت تک جدائی کے ارادے سے باز ٓجانے اور ملاپ کرلینے کا موقع باقی رہتا ہے۔ پس نکاح کا رشتہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ جس گھڑی چاہا، بات کی بات میں توڑ کر رکھ دیا۔ اس کے تورنے کے لیے مختلف منزلوں سے گزرنے، اچھی طرح سوچنے سمجھنے، یکے بعد دیگرے اصلاح کی مہلت پانے، اور پھر اصلاح حال سے بالکل مایوس ہو کر آخری فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ شوہر کے لیے جائز نہیں کہ جو کچھ بیوی کو دے چکا ہے یا دینا کیا ہے طلاق دیتے ہوئے واپس لے لے۔ (جیسا کہ عرب میں جاہلت میں لوگ کیا کرتے تھے) ہاں اگر ایسی صورت پیش آجائے کہ شوہر طلاق دینا نہ چاہتا ہو نہ اس کی طرف سے کوئی تصور ہو۔ لیکن کسی وجہ سے آپس میں بنتی نہ ہو اور اندیشہ پیدا ہوگیا کہ ازدواجی زندگی کے فرائض ادا نہ ہوسکیں گے، تو اس صورت میں اگر عورت کہے، میں اپنا مہریاں اس کا کوئی حصہ چھوڑ دیتی ہوں، اور شوہر اس کے بدلے میں طلاق دے دے تو ایسی معاملت ہوسکتی ہے۔ اسی کو "خلع" کہتے ہیں۔ نکاح کا مقصد یہ نہیں ہے کہ ایک مرد اور ایک عورت کسی نہ کسی طرح ایک دوسرے کے گلے پڑجائیں، اور نہ یہ ہے کہ عورت کو مرد کی خود غرضانہ کام جوئیوں کا آلہ بنا دیا جائے۔ بلکہ مقصود حقیقی یہ ہے کہ دونوں کے ملاپ سے ایک کامل اور خوش حال ازدواجی زندگی پیا ہوجائے۔ ایسی زندگی جب ہی پیدا ہوسکتی ہے۔ کہ آپس میں محبت و سازگاری ہو، اور حدود اللہ یعنی خدا کے ٹھہرائے واجبات و حقوق ادا کیے جائیں اگر کسی وجہ سے ایسا نہیں ہے تو نکاح کا مقصود حقیقی فوت ہوگیا اور ضروری ہوگیا کہ دونون فریقوں کے لیے تبدیلی کا دروازہ کھول دیا جائے۔ اگر مقصود نکاح کے فوت ہوجانے پر بھی علیحدگی کا دروازہ نہ کھولا جاتا۔ تو یہ انسان کے آزادانہ حق انتخاب کے خلاف ایک ظالمانہ رکاوٹ ہوتی اور ازدواجی زندگی کی سعادت سے سوسائٹی کو محروم کردینا ہوتا۔ یا تو عورت کو بیوی کی طرح رکھنا چاہیے اور اس کے حقوق ادا کرنے چاہیں یا طلاق دے کر اس کی راہ کھول دینی چاہیے۔ یہ نہیں کرنا چاہیے کہ نہ تو بیویوں کی طرح رکھو، نہ طلاق دے کر اس کی راہ کھولو۔ بیچ میں لٹکائے رکھو (جیسا کہ عرب جاہلیت میں لوگ کیا کرتے تھے)۔ ازدواجی زندگی کا معاملہ نہایت اہم اور نازک ہے۔ اور مرد کی خود غرضیوں اور نفس پرستیوں سے ہمیشہ عورتوں کی حق تلفی ہوئی ہے۔ اس لیے خصوصیت کے ساتھ یہاں مسلمانوں کو نصیحت کی گئی کہ اللہ نے انہیں "نیک ترین" امت ہونے کا مرتبہ عطا فرمایا ہے اور کتاب و حکمت کی تعلیم نے ہدایت و موعظت کے تمام پہلو واضح کردیے ہیں پس اپنے جماعت شرف و مقام کی ذمہ داریوں سے غافل نہ ہوں اور زدواجی زندگی میں اخلاق و پرہیز گاری کا بہترین نمونہ بنیں۔ ضمناً اس حقیقت کی طرف اشارہ کہ جس جماعت کے افراد کی ازدواجی زندگی درست نہیں ہے وہ کبھی ایک فلاح یافتہ جماعت نہیں ہوسکتی۔