يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ ۖ قُلْ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُمَا أَكْبَرُ مِن نَّفْعِهِمَا ۗ وَيَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَ قُلِ الْعَفْوَ ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ
لوگ آپ سے شراب اور جوئے کا مسئلہ پوچھتے ہیں، آپ کہہ دیجئے ان دونوں میں بہت بڑا گناہ ہے (١) اور لوگوں کو اس سے دنیاوی فائدہ بھی ہوتا ہے، لیکن ان کا گناہ ان کے نفع سے بہت زیادہ (٢) ہے، آپ سے بھی دریافت کرتے ہیں کہ کیا کچھ خرچ کریں، تو آپ کہہ دیجئے حاجت سے زیادہ چیز (٣) اللہ تعالیٰ اس طرح سے اپنے احکام صاف صاف تمہارے لئے بیان فرما رہا ہے تاکہ تم سوچ سمجھ سکو۔
جنگ کے سلسلہ میں تین سوالات پیدا ہوگئے تھے۔ ان کے جوابات دیے گئے : عام طور پر سمجھا جاتا تھا (اور اب تک سمجھا جاتا ہے) کہ شراب سے لڑائی لڑنے میں مدد ملتی ہے اور جوا حصول مال کا ذریعہ ہے۔ اس غلطی کا ازالہ کردیا گیا اور یہ اصولی حقیقت بتلا دی گئی کہ صرف اشیا کا نفع ہی نہیں دیکھنا چاہیے کیونکہ اضافی نفع سے تو کوئی چیز بھی خالی نہیں۔ بلکہ نفع اور نقصان دونوں کو تولنا چاہیے۔ جس چیز میں نقصان زیادہ ہو اسے ترک کردینا چاہیے۔ اگرچہ تھوڑا بہت نفع بھی ہو۔ اور جس چیز میں نفع زیادہ ہو اسے اختیار کرنا چاہیے اگرچہ نقصان کا بھی احتمال ہو۔ دوسرا سوال یہ تھا کہ مصارف جنگ کے لیے اور اسی طرح کی دوسری قومی ضرورتوں کے لیے کس قدر انفاق کیا جائے؟ فرمایا، کوئی خاص قید، نہیں ضروریات معیشت سے جو کچھ فاضل ہو کر بچ رہے اسے راہ مقصد میں لگا دو۔ تیسرا سوال یتیم بچوں کی نسبت تھا۔ حکم دیا گیا کہ جس طریقے میں ان کے لیے اصلاح و درستگی ہو وہی بہتر ہے اور وہی اختیار کرنا چاہیے۔ اور اگر تم انہیں اپنے گھرانے میں شامل کرلو تو وہ تمہارے بھائی ہیں کچھ غیر نہیں۔