وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِفَتَاهُ لَا أَبْرَحُ حَتَّىٰ أَبْلُغَ مَجْمَعَ الْبَحْرَيْنِ أَوْ أَمْضِيَ حُقُبًا
جبکہ موسیٰ نے اپنے نوجوان (١) سے کہا کہ میں تو چلتا ہی رہوں گا یہاں تک کہ دو دریاؤں کے (٢) سنگم پر پہنچوں، خواہ مجھے سالہا سال چلنا پڑے (٣)۔
حضرت موسیٰ کی ملاقات جس شخص سے ہوئی اس کی نسبت فرمایا ہم نے اسے اپنے پاس سے ایک علم عطا فرمایا تھا قرآن جب کبھی کسی ایسی بات کو اس طرح بولتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ بات براہ راست ظہور میں آئی تھی۔ یعنی دنیوی ولائل کو اس میں دخل نہ تھا، پس معلوم ہوا وہ شخص صاحب وحی تھا اور اللہ نے اسے براہ راست علم عطا فرمایا تھا۔ چنانچہ آگے چل کر اس کا قول آتا ہے (ما فعلتہ عن امری) میں نے جو کچھ کیا اللہ کے حکم سے کیا اپنی سمجھ سے نہیں کیا۔ یہ علم خاص جو اسے دیا گیا تھا یقینا یہ تھا کہ بعض امور کے بواطن و اسرار اس پر کھول دیے گئے۔ حضرت موسیٰ نے ارادہ کیا تھا کہ خاموش رہیں گے لیکن ان کا ارادہ چل نہ سکا۔ ہر مرتبہ بول اٹھے اس سے معلوم ہوا انسانی عقل مجبور ہے کہ ظواہر پر حکم لگائے۔ وہ اس سے رک نہیں سکتی مگر یہیں ٹھوکر کھاتی ہے۔ کیونکہ بواطن و حقائق تک نہیں پہنچ سکتی۔ حضرت موسیٰ کے ساتھی نے تین باتیں کیں تینوں کا ظاہر برا تھا لیکن تینوں کی تہہ میں بہتری ہی بہتری تھی۔ حضرت موسیٰ ظاہر دیکھ رہے تھے لیکن ان کے ساتھی پر اللہ نے باطن روشن کردیا تھا، اگر اسی طرح ظواہر کا پردہ اٹھ جائے اور وہ حقیقتیں سب کے سامنے آجائیں جو حضرت موسیٰ کے ساتھ کے سامنے آگئی تھیں تو دنیا کا کیا حال ہو؟ سارے احکام کس طرح بدل جائیں؟ لیکن نہیں، حکمت الہی یہی ہے کہ پردہ نہ اٹھے کیونکہ اسی پردہ سے عمل کی ساری آزمائش قائم ہے اور ضروری ہے کہ آزمائش ہوتی رہے۔ اہل کتاب سے معلومات حاصل کر کے لوگوں نے بعض سوالات کیے تھے، انہی میں ایک سوال ذوالقرنین کی نسبت تھا، یہاں اس کا جواب دیا ہے، فرمایا ہم نے اسے زمین میں حکمرانی دی تھی، اور فتوحات کے سارے سازوسامان مہیا کردیے تھے۔ پھر اس کی تین مہموں کا ذکر کیا ہے : (ا) وہ پچھم کی طرف بڑھتا گیا، یہاں تک کہ ایک ایسے سمندر کے کنارے پہنچ گیا جس کا پانی کیچڑ سے ملا ہوا گدلا تھا اور معلوم ہوتا تھا روز سورج اسی پانی میں ڈوب جاتا ہے، کیونکہ حد نگاہ تک خشکی دکھائی نہیں دیتی تھی۔ (ب) پھر وہ اتر کی طرف چلا، یہاں تک کہ وحشی قبائل کی ٹولیاں اسے ملیں، وہ کھلے میدانوں میں زندگی بسر کرتے تھے۔ (ج) پھر وہ نکلا اور ایک ایسی جگہ پہنچا جہاں دو پہاڑوں نے دو دیواروں کی شکل اختیار کرلی ہے۔ یاجوج اور ماجود اسی راہ سے آتے تھے اور اس طرف کی بستیوں میں لوٹ مار کرتے تھے، وہاں کے باشندوں کی استدعا پر اس نے وہاں ایک دیوار بنا دی جس کی وجہ سے حملہ آوروں کا رستہ بالکل بند ہوگیا۔ جب دیوار تیار ہوگئی تو ذوالقرنین نے کہا یہ اللہ کی مہربانی ہے کہ ایسا عظیم الشان کام میرے ہاتھوں انجام پایا گیا۔ اب اسے کوئی ڈھا سکتا، ہاں جب وہ مقررہ وقت آئے گا جس کی اللہ نے خبر دے دی ہے تو بلاشبہ یہ ریزہ ریزہ ہو کر رہ جائے گی اور یہاں ہر چیز کو بالآخر فنا ہونا ہے۔