كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللَّهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ وَأَنزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ ۚ وَمَا اخْتَلَفَ فِيهِ إِلَّا الَّذِينَ أُوتُوهُ مِن بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ ۖ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِهِ ۗ وَاللَّهُ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ
در اصل لوگ ایک ہی گروہ تھے (١) اللہ تعالیٰ نے نبیوں کو خوشخبریاں دینے اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا اور ان کے ساتھ سچی کتابیں نازل فرمائیں، تاکہ لوگوں کے ہر اختلافی امر کا فیصلہ ہوجائے۔ صرف ان ہی لوگوں نے جو اسے دیئے گئے تھے، اپنے پاس دلائل آ چکنے کے بعد آپس کے بغض و عناد کی وجہ سے اس میں اختلاف کیا (٢) اس لئے اللہ پاک نے ایمان والوں کی اس اختلاف میں بھی حق کی طرف اپنی مشیت سے رہبری کی (٣) اور اللہ تعالیٰ جس کو چاہے سیدھی راہ کی طرف رہبری کرتا ہے۔
دین حق کی اس اصل عظیم کا اعلان کہ ابتدا میں تمام انسان ایک ہی قوم و جماعت تھے اور فطری زندگی کی سادی پر قانع تھے۔ پھر ایسا ہوا کہ نسل انسانی کی کثرت و وسعت سے طرح طرح کے تفرقے پیدا ہوگئے اور تفرقے کا نتیجہ ظلم و فساد کی صورت میں ظاہر ہوا۔ تب وحی الٰہی نمودار ہوئی اور یکے بعد دیگرے خدا کے رسول مبعوث ہوتے رہے۔ ہر رسول کی دعوت کا مقصد ایک ہی تھا۔ یعنی خدا پرستی و نیک عملی کی تلقین اور تفرقہ و اختلاف کی جگہ وحدت و اجتماع کا قیام۔ کتاب اللہ ہمیشہ اس لیے نازل ہوئی۔ تاکہ دین کے تفرقہ و اختلاف میں فیصلہ کرنے والی ہو، اور لوگوں کو وحد دین کی اصل پر متحد کردے۔ تفرقہ و اختلاف کی علت باہمی "یعنی عصیان" ہے۔ یعنی آپس کی ضد اور اتباع حق کی جگہ خود پرستی اور سرکشی۔ اس محل میں اس ذکر کی مناسبت یہ ہے کہ پیروان اسلام کو دعوت استقامت دیتے ہوئے پہلے بنی اسرائیل کے حالت سے استشہاد کیا تھا۔ اب واضح کیا جاتا ہے کہ صرف بنی اسرائیل ہی پر موقوف نہیں۔ تمام پچھلی جماعتوں کا یہی حال رہا ہے پس قیام حق کے تعلیم حق کی نہیں (کیونکہ وہ تو اول روز سے ایک ہی رہی ہے، اور ہمیشہ موجود رہی ہے) بلکہ حق پر ثابت قدم رہنے کی ضرورت ہے۔