سورة الكهف - آیت 28

وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ ۖ وَلَا تَعْدُ عَيْنَاكَ عَنْهُمْ تُرِيدُ زِينَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَن ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ وَكَانَ أَمْرُهُ فُرُطًا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور اپنے آپ کو انھیں کے ساتھ رکھا کر جو اپنے پروردگار کو صبح شام پکارتے ہیں اور اسی کے چہرے کے ارادے رکھتے ہیں (رضا مندی چاہتے ہیں)، خبردار! تیری نگاہیں ان سے نہ ہٹنی پائیں (١) کہ دنیاوی زندگی کے ٹھاٹھ کے ارادے میں لگ (٢) جا۔ دیکھ اس کا کہنا نہ ماننا جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کردیا ہے اور جو اپنی خواہش کے پیچھے پڑا ہوا ہے اور جس کا کام حد سے گزر چکا ہے (٣)۔

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

آیت (٢٨) میں مزید تشریح کی۔ فرمایا آخری اعلان کردو کہ خدا کی سچائی سب کے سامنے آگئی ہے۔ اب جس کا جی چاہیے مانے، جس کا جی چاہے نہ مانے، جو مانیں گے ان کے لیے ان کا اجر ہوگا، جو نہیں مانیں گے ان کے لیے ان کا عذاب۔ پہلے فرمایا تھا جس کا جی چاہے مانے جس کا جی چاہے نہ مانے، جو نہ مانیں گے انہیں اپنی بدعملیوں کا نتیجہ بھگتنا ہے، جو مانیں گے ان کے لیے ان کی نیک عملیوں کا اجر اہے، پھر اخروی عذاب و ثواب کا نقشہ کھینچا تھا کہ منکروں کے لیے آگ کی جلن ہوگی۔ مومنوں کے لیے ہمشیگی کے باغ، اب یہ حقیقت واضح کی ہے کہ آخرت کی طرح دنیا میں بھی منکرین دعوت کو محرومیاں ملنے والی ہیں، وہ اپنی موجودہ خوشحالیوں پر مغرور نہ ہوں اور نہ مومن اپنی موجودہ بے سروسامانیاں دیکھ کر دل تنگ ہوجائیں۔ دنیا کی خوشحالیوں کا کوئی ٹھکانا نہیں۔ وہ جب مٹنے پر آتی ہیں تو لمحوں میں مٹ جاتی ہیں اور انسان کی کوئی سعی و تدبیر انہیں بچا نہیں سکتی۔