سورة الإسراء - آیت 51

أَوْ خَلْقًا مِّمَّا يَكْبُرُ فِي صُدُورِكُمْ ۚ فَسَيَقُولُونَ مَن يُعِيدُنَا ۖ قُلِ الَّذِي فَطَرَكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ ۚ فَسَيُنْغِضُونَ إِلَيْكَ رُءُوسَهُمْ وَيَقُولُونَ مَتَىٰ هُوَ ۖ قُلْ عَسَىٰ أَن يَكُونَ قَرِيبًا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

یا کوئی اور ایسی خلقت جو تمہارے دلوں میں بہت ہی سخت معلوم ہو، (١) پھر وہ یہ پوچھیں کہ کون ہے جو دوبارہ ہماری زندگی لوٹائے؟ جواب دیں کہ وہی اللہ جس نے تمہیں اول بار پیدا کیا، اس پر وہ اپنے سر ہلا ہلا کر (٢) آپ سے دریافت کریں گے کہ اچھا یہ ہے کب؟ تو آپ جواب دے دیں کہ کیا عجب کہ وہ (ساعت) قریب ہی آن لگی ہو (٣)۔

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

یہاں بھی آیت (٥١) میں یہی استدلال ہے۔ پہلی زندگی سے مراد نوع کی زندگی بھی ہوسکتی ہے اور فرد کی بھی۔ ہر فرد اپنی ہستی میں غور کرسکتا ہے۔ اس کا وجود نہ تھا مگر ظہور میں آگیا اور کس طرح ظہور میں آیا؟ محض نطفہ کے ایک خرد بینی کیڑے سے جو عقلہ کی طرح ہوتا ہے، یعنی جونک کی طرح، پھر اگر کیڑے کے ایک ذرہ سے اس کا وجود بن سکتا تھا تو کیا اس کے پورے وجود کے ذرات سے دوبارہ وجود نہیں بن سکتا؟ (مالکم کیف تحکمون)