وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ۚ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُل لَّهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا
اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے تم اس کے سوا اور کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا۔ اگر تیری موجودگی میں ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے آگے اف تک نہ کہنا، نہ انھیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے بات کرنا (١)
والدین کی خدمت و اطاعت کی آزمائش کا اصلی وقت ان کے بڑھاپے کا وقت ہوتا ہے۔ کیونکہ بڑھاپے کی کمزوریاں انہیں دوسروں کی خدمت و اعانت کا محتاج بنا دیتی ہیں اور اولاد اپنی جوانی کی امنگوں اور عیش پرستیوں میں اس کی بہت کم مہلت پاتی ہے کہ اپنے محتاج اور معذور ماں باپ کی خبر گیری کرے۔ پس یہاں سب سے زیادہ زور اسی بات پر دیا۔ کیونکہ جو اولاد اپنے بوڑھے ماں باپ کی خدمت و اطاعت میں کوتاہی نہیں کرے گی وہ دوسرے وقتوں میں کب کوتاہی گوارا کرسکتی ہے۔ انسان کی احتیاج کے دو ہی وقت ہوتے ہیں۔ طفولیت اور بڑھاپا۔ طفولیت میں ماں باپ نے خدمت کی تھی، بڑھاپے میں اولاد کو کرنی چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ فرمایا : (رب ارحمھما کما ربیانی صغیرا) ماں باپ کے بعد قرابت داروں کے حقوق ہیں اور پھر ان سب کے ہیں جو ہماری خبر گیری کے محتاج ہوں۔ پس آیت (٢٦) میں اس کا حکم دیا اور فرمایا (ولاتبذر تبذیرا) تمہارے خرچ کرنے کا صحیح محل یہ ہے۔ پس مال و دولت بے محل خرچ نہ کرو۔ پھر فرمایا جو لوگ تبذیر کرتے ہیں یعنی خدا کی دی ہوئی دولت بے محل خرچ کر ڈالتے ہیں۔ مثلا محض اپنے نفس کی عیش پرستیوں میں اڑار دیں گے۔ تو وہ شطیان کے بھائی بندوں میں سے ہیں کیونکہ شیطان کی راہ کفران کی راہ ہے اور انہوں نے بھی کفران نعمت کی راہ اختیار کی۔ مال و دولت کے بے جا استعمال کی دو ہی صورتیں ہوسکتی ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی نہ تو اپنے اوپر خرچ کرے نہ دوسروں پر، محض جمع کر کے رکھے۔ دوسری یہ کہ صرف اپنے اوپر خرچ کرے، دوسروں پر خرچ نہ کرے۔ قراان نے دونوں صورتوں کو معصیت قرار دیا ہے۔ پہلی صورت اکتناز کی ہے : (والذین یکنزون الذھب والفضۃ) دوسری تبذیر کی۔ یہاں تبذیر سے روکا ہے۔