يُنَزِّلُ الْمَلَائِكَةَ بِالرُّوحِ مِنْ أَمْرِهِ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ أَنْ أَنذِرُوا أَنَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا أَنَا فَاتَّقُونِ
وہی فرشتوں کو اپنی وحی (١) دے کر اپنے حکم سے اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے (٢) اتارتا ہے کہ تم لوگوں کو آگاہ کر دو کہ میرے سوا اور کوئی معبود نہیں، پس تم مجھ سے ڈرو۔
قرآن نے جابجا وحی الہی کو الروح سے تعبیر کیا ہے۔ یہاں آیت (٢) میں بھی الروح سے مقصود وحی ہے اور ظاہر ہے کہ وحی کے لیے اس سے بہتر تعبیر نہیں ہوسکتی۔ وہ نظر نہیں آتی لیکن جس جسم پر اتری ہے وہ اس سے معمور ہوجاتا ہے اور اس کے اندر سے اس کی صدائیں اٹھنے لگتی ہیں، نیز اس اعتبار سے بھی وہ الروح ہے کہ انسانی سعادت کی زندگی اسی سے قائم ہے۔ (استجیبواللہ وللرسول اذا دعا کم لما یحیکم) حضرت مسیح (علیہ السلام) نے اسی حقیقت کو روح القدس سے تعبیر کیا ہے اور حواریوں نے بھی اسی معنی میں اسے استعمال کیا ہے۔ گرچہ بعد میں اس کی حقیقت عیسائیوں پر مشتبہ ہوگئی۔