الر ۚ تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ وَقُرْآنٍ مُّبِينٍ
ا لر، یہ کتاب الٰہی کی آیتیں ہیں اور کھلی اور روشن قرآن کی (١)۔
قرآن نے جابجا اپنے اس وصف پر زور دیا ہے کہ وہ مبین ہے۔ یعنی ظاہر ہے، نمایاں ہے، روشن ہے۔ لیکن کس بات میں؟ اپنے مطالب میں اپنی دعوت میں، اپنے دلائل و آیات میں، یعنی اس کی کوئی بات نہیں جو الجھی ہوئی ہو، مشکل ہو، ناقابل فہم ہو، ہر ذہن اسے بوجھ لے سکتا ہو، ہر دل اسے قبول کرلے سکتا ہے، ہر روح اس پر مطمئن ہوجاسکتی ہے، وہ زیادہ سے زیادہ سیدھی ساھی بات ہے جو انسان کے دل و دماغ کے لیے ہوسکتی ہے۔ کیونکہ وہ سچائی ہے اور سچائی کی کوئی بات مشکل اور الجھی ہوئی نہیں ہوسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے اپنے آپ کو النور بھی کہا ہے۔ یعنی روشنی، روشنی کا خاصہ ہے کہ ہر بات کو نمایاں کردیتی ہے، کوئی بات چھپی نہیں رہ سکتی، اگر وضاحت اور نمود نہیں ہے تو پھر اجالا بھی نہیں، اجالا جب کبھی ہوگا نمودوہ وضاحت اپنے ساتھ لائے گا۔ جب لوگوں نے اس کے خلاف انکار و سرکشی کی راہ اختیار کیے وہ اپنی ہلاکت کا اپنے ہاتوں سامان کر رہے ہیں لیکن انہیں معلوم نہیں، ایک دن آنے والا ہے جب وہ حسرت و ندامت کے ساتھ کہیں گے۔ کاش ہم نے انکار نہ کیا ہوتا۔