الر ۚ كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِ رَبِّهِمْ إِلَىٰ صِرَاطِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ
یہ عالی شان کتاب ہم نے آپ کی طرف اتاری ہے کہ آپ لوگوں کو اندھیروں سے اجالے کی طرف لائیں (١) ان کے پروردگار کے حکم (٢) سے زبردست اور تعریفوں والے اللہ کی طرف۔
اس سورت کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں انبیاء کے ظہور اور اسکے احوال و ظروف اور نتائج کو مجموعی طور پر پیش کیا گیا ہے۔ بیان حضرت موسیٰ کی زبانی ہے، یعنی اس باب میں ان کی موعظت نقل کی گئی ہے، پھر سلسلہ بیان دعوت قرآن کے ظہور پر متوجہ ہوگیا ہے اور واضح کیا ہے کہ جو نتائج ہمیشہ نکل چکے ہیں ویسے ہی نتائج اب بھی نکلیں گے۔ آخرت میں اس حقیقت کی طرف توجہ دلائی ہے کہ دعوت قرآن دراصل دعوت ابراہیمی کی تجدید ہے اور اسی عہد الہی کا ظہور ہے جو حضرت ابراہیم سے کیا گیا ہے۔ ایک خاص بات یہ بھی نمایاں ہے کہ خطاب کا رخ زیادہ تر روسائے قریش کی طرف ہے جن کے ہاتھ میں ملک کی ریاست و پیشوائی کی بات تھی۔ ہدایت روشی ہے اور ضلالت تاریکی ہے، سنت الہی یہ ہے کہ جب تاریکی پھیل جاتی ہے تو وہ ہدایت کے ذریعہ سے انسانوں کو تاریکی سے نکالتا ہے ور روشنی میں لاتا ہے۔ چنانچہ قرآن کا ظہور اسی روشنی کا پیام ہے اور ایسا ہی پیام حضرت موسیٰ نے بھی دیا تھا۔ سورۃ ہود کے آخری نوٹ میں یہ بات واضح کی جاچکی ہے کیونکہ گزشتہ اقوام کے وقائع و ایام کو ایام اللہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہاں فرمایا کہ حضرت موسیٰ کو وحی الہی سے ایمان ہوا تھا کہ اپنی قوم کو ایام اللہ کی عبرتیں اور بصیرتیں یاد دلائیں، کیونکہ ان میں صبر و شکر کرنے والوں کے لیے فتح و کامرانی کی بڑی بڑی نشانیاں پوشیدہ ہیں۔ بنی اسرائیل مصر میں عرصہ تک مظلوم و مقہوری کی زندگی بسر کرچکے تھے۔ اس لیے طبیعتوں میں مایوسی و بے ہمتی سرایت کرگئی تھی۔ مستقبل کے فتح، اقبال کی بشارتیں سنتے مگر اپنے دل میں عزم و ثبات کے ولولے نہیں پاتے تھے۔ پس حضرت موسیٰ کو حکم ہوا کہ انہیں ایام اللہ کے تذکرے سناؤ۔ ان تذکروں میں قوانین حق کی بڑی بڑی نشانیاں ہیں، یعنی بڑی بڑی دلیلیں ہیں، یہ دلیلیں واضح کردیں گی کہ جو لوگ مصائب و محن کے مقابلہ میں ہمت نہیں ہار دیتے، سچائی کی راہ میں جمے رہتے ہیں اور سعی و عمل سے گھبراتے نہیں، ان کی کامیابی قطعی اور اٹل ہوتی ہے اور ہمیشہ ایسے ہی لوگ فتح و مراد سے ہم آغوش ہوتے ہیں۔