سورة البقرة - آیت 168

يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَالًا طَيِّبًا وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

لوگو! زمین میں جتنی بھی حلال اور پاکیزہ چیزیں ہیں انہیں کھاؤ پیو اور شیطانی راہ پر مت چلو (١) وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

ان اصولی مہمات کی تلقین کے بعد اب یہاں سے ان فروعی احکام کا بیان شروع ہوتا ہے جن کے متعلق طرح طرح کی گمراہیاں لوگوں میں پھیلی ہوئی تھیں اور دین حق کی بنیادی صداقتوں پر ان کا اثر پڑتا تھا۔ یہ بیان اگرچہ فروعی احکام کا بیان ہے لیکن اپنی تشریحات و موعظت میں سرتاسر اصولی معارف ہیں۔ من جملہ عالم گیر گمراہیوں کے ایک بنیادی گمراہی یہ تھی کہ کھانے پینے کے بارے میں طرھ طرح کی بے اصل پابندیاں لگالی گئی تھیں اور دینداری کی سب سے بڑی بات یہ سمجھی جاتی تھی کہ انسان کھانے پینے میں سب سے زیادہ توہم پرست ہو۔ ظاہر ہے کہ جس جماعت کی ذہنیت ایسی توہم پرستانہ پابندیوں میں جکڑی ہوئی وہ کبھی آزادی کے ساتھ ترقی و وسعت کا قدم نہیں اٹھا سکتی۔ پس سب سے پہلے اس معاملہ کی حقیقت واضح کی گئی اور ان تمام غلطیوں کا ازالہ کردیا گیا جو اس بارے میں پھیلی ہوئی تھیں خدا نے انسان کی غذا کے لیے جس قدر اچھی چیزیں زمین مہیا کردی ہیں شوق سے کھانی چاہیں۔ بے اصل روک ٹوک اور منگھڑت پابندیاں شیطانی وسوسے ہیں ضمناً اس حقیقت کی طرف اشارہ کہ ایمان کی راہ عقل و بصیرت کی راہ ہے اور کفر کا خاصہ کورانہ تقلید اور بے بصیرتی ہے۔ اندھی تقلید کرنا، جو کچھ دیکھتے اور سنتے آئے ہیں بے سمجھے بوجھے اسی پر جمے رہنا اور دلیل و برہان کی جگہ اپنے بزرگوں اور پیشیواؤں کا قول و عمل حجت سمجھنا ہدایت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اندھی تقلید کرنے والوں کے سامنے، علم، بصیرت کی بات پیش کرنا ایسا ہے جیسے چارپایوں کو مخاطب کرنا۔