سورة یوسف - آیت 106

وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُم بِاللَّهِ إِلَّا وَهُم مُّشْرِكُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

ان میں سے اکثر لوگ باوجود اللہ پر ایمان رکھنے کے بھی مشرک ہی ہیں (١)

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

آیت (١٠٦) کے پانچ چھ لفظوں میں وہ سب کچھ بیان کردیا جو باب توحید میں دعوت قرآنی کا ماحصل ہے، فرمایا اکثر لوگوں کا حال یہ ہے کہ خدا کی ہستی پر یقین بھی رکھتے ہیں اور ساتھ ہی دوسروں کو اس کا شریک بھی ٹھہراتے ہیں، یعنی ان کا خدا کو ماننا ایسا ماننا نہیں ہے جو شرک سے انہیں باز رکھے۔ دنیا کی تمام قوموں کی دینی ذہنیت کی یہ کیسی مکمل تعبیر ہے جو چند لفظوں کے اندر بیان کردی گئی ہے؟ نزول قرآن کے وقت دنیا کی تمام خدا پرست جماعتوں کی خدا پرستی کا یہی حال تھا اور اب بھی دیکھ لو یہی حال ہے وہ خدا پر ایمان رکھتے تھے لیکن ان کا ایمان طرح طرح کے مشرکانہ عقائد و اعمال سے آلودہ ہوگیا تھا، وہ نہیں سمجھتے تھے کہ ایمان صحیح کے ساتھ شرک جمع نہیں ہوسکتا، عرب کے بت پرستوں کو ببھی اس سے انکار نہ تھا کہ آسمان و زمین کا پیدا کرنے والا اللہ کے سوا کوئی نہیں : (ولئن سالتھم من خلق السموات والارض وسخر الشمس والقمر لیقولن اللہ فانی یوفکون) لیکن یہ بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ کیوں صرف اسی کی ایک ہستی ہر طرح کی بندگیوں کی مستحق سمجھ لی جائے؟ کیوں دوسری ہستیوں کی بھی بندگی نہ کی جائے؟ کیوں خدا اور بندے کے درمیان کوئی درمیان قوت وسیلہ تقرب و تزلف نہ ہو؟ قرآن کی دعوت توحید : لیکن قرآن کی دعوت توحید یہ تھی کہ اس طرح کی خدا پرستی سچی خدا پرستی نہیں ہے، خدا پرستی یہ ہے کہ نہ صڑف اسے مانا جائے بلکہ جو اس کے لیے مانا جائے اس میں کسی دوسری ہستی کو شریک نہ کیا جائے، اس نے کہا ہر طرح کی بندگی و نیاز کی مستحق صرف اسی کی ذات ہے۔ پس اگر تم نے عابدانہ عجز و نیاز کے ساتھ کسی دوسری ہستی کے سامنے سر جھکایا تو سچی خدا پرستی باقی نہ رہی، اس نے کہا، دعا، استعانت، رکوع و سجود، عجز و نیاز، اعتماد و توکل اور اسی طرح کے تمام عبادت گزارانہ اور نیاز مندانہ اعمال وہ اعمال ہیں جو خدا اور اس کے بندوں کا باہمی رشتہ قائم کرتے ہیں، پس اگر ان اعمال میں دوسروں کو بھی شریک کرلیا تو خدا کے رشتہ عبودیت کی یگانگت باقی نہ رہی، اور جب یگانگت باقی نہ رہی تو سچی خدا پرستی بھی نہ ہوئی۔ اسی طرح عظمتوں، کبریائیوں، کارسازیوں اور بے نیازیوں کا جو تصور تمہارے اندر خدا کا اعتقاد پیدا کرتا ہے وہ صرف خدا ہی کے لیے مخصوص ہونا چاہیے۔ اگر تم نے ویسا ہی اعتقاد کسی دوسری ہستی کے لیے پیدا کرلیا تو تم نے اسے خدا کا شریک بنا دیا اور جب شریک بنا دیا تو صرف اسی کو نہیں مانا دوسروں کو بھی مان لیا، حالانکہ اس کے ماننے کے معنی تو یہ تھے کہ صرف اسی کو مانا جائے۔