فَبَدَأَ بِأَوْعِيَتِهِمْ قَبْلَ وِعَاءِ أَخِيهِ ثُمَّ اسْتَخْرَجَهَا مِن وِعَاءِ أَخِيهِ ۚ كَذَٰلِكَ كِدْنَا لِيُوسُفَ ۖ مَا كَانَ لِيَأْخُذَ أَخَاهُ فِي دِينِ الْمَلِكِ إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّهُ ۚ نَرْفَعُ دَرَجَاتٍ مَّن نَّشَاءُ ۗ وَفَوْقَ كُلِّ ذِي عِلْمٍ عَلِيمٌ
پس یوسف نے ان کے سامان کی تلاشی شروع کی، اپنے بھائی کے سامان کی تلاشی سے پہلے، پھر اس پیمانہ کو اپنے بھائی کے سامان (زنبیل) سے نکالا (١) ہم نے یوسف کے لئے اسی طرح یہ تدبیر کی (٢) اس بادشاہ کی قانون کی رو سے یہ اپنے بھائی کو نہ لے جاسکتا تھا (٣) مگر یہ کہ اللہ کو منظور ہو ہم جس کے چاہیں درجے بلند کردیں (٤) ہر ذی علم پر فوقیت رکھنے والا دوسرا ذی علم موجود ہے (٥)۔
یہی وجہ ہے کہ آیت (٧٦) میں اس معاملہ کے ذکر کے بعد ہی فرمایا : (کذلک کدنا لیوسف) یوسف ملک کے قانون کے مطابق بنیماین کو نہیں روک سکتے تھے، اور اس نے روکنا چاہا بھی نہیں، اگرچہ دل اس کے لیے بے قرار تھا لیکن حکمت الہی نے ایک مخفی اور دقیق تدبیر پیدا کردی، جو انسان کے کیے نہیں ہوسکتی تھی، اور کید کے معنی مخفی اور دقیق تدبیر ہی کے ہیں۔ (ک) جھوٹوں کا قاعدہ ہے کوئی موقع کوئی بات ہو جھوٹ بولنے سے نہیں روکتے، اگر مدح کا موقع ہو تو جھوٹی مدح کردیں گے، مذمت کا موقع ہو تو کوئئی جھوٹا الزام لگا دیں گے، جب بنیماین کی خرجی میں سے پیالہ نکل آیا تو بھائیوں کا سوتیلے پن کا حسد جوش میں آگیا۔ جھٹ بول اٹھھے، اگر اس نے چوری کی تو کوئی عجیب بات نہیں۔ اس کا بھائی یوسف بھی چور تھا۔ پس یہ بغض و حسد کی ایک بات تھی اس کا مطلب یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ واقعی کوئی ایسی بات ہوئی بھی تھی، قرآن نے خصوصیت کے ساتھ ان کی یہ بات اس لیے نقل کی کہ واضح ہوجائے، بغض و حسد انسان کو کیسی کیسی غلط بیانیوں کا عادی بنا دیتا ہے۔