وَلَمَّا دَخَلُوا عَلَىٰ يُوسُفَ آوَىٰ إِلَيْهِ أَخَاهُ ۖ قَالَ إِنِّي أَنَا أَخُوكَ فَلَا تَبْتَئِسْ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
یہ سب جب یوسف کے پاس پہنچ گئے تو اس نے اپنے بھائی کو اپنے پاس بٹھا لیا اور کہا کہ میں تیرا بھائی (یوسف) ہوں پس یہ جو کچھ کرتے رہے اس کا کچھ رنج نہ کر (١)۔
حضرت یوسف کا چاہتا کہ بنیامین کو اپنے پاس رکھ لیں لیکن اس کی کوئی راہ نہ پانا اور رخصت کردینا لیکن حکتم الہی سے ایک عجیب و غریب حادثہ کا پیش آجانا اور بنیامین کا ان کے پاس رہ جانا۔ (ا) بنیامین حضرت یوسف کا حقیقی بھائی تھا، اتنی مدت کے بعد دیکھا تو کسی طرح دل نہیں مانتا تھا کہ اسے جدا ہونے دیں، لیکن مشکل یہ آپڑی کہ روک بھی نہیں سکتے تھے، اس بارے میں مصر کا قانون بہت سخت تھا، بلاوجہ کسی آدمی کو خصوصا اجنبی کو روک لینا جائز نہ تھا۔ اور ابھی اس کا وقت بھی نہیں آیا تھا کہ اپنی شخصیت بھائیوں پر ظاہر کریں۔ مجبور ہو کر رخصت کردیا اور اس غرض سے کہ اپنی ایک نشانی اسے دے دیں، اس کے سامان میں اپنا چاندی کا کٹورا رکھ دیا، چونکہ بھائیوں پر اس بات کا اظہار خلاف مصلحت تھا اس لیے یہ بات پوری پوشیدگی کے ساتھ عمل میں آئی۔ لیکن جب یہ لوگ روانہ ہوگئے تو حضرت یوسف کے محل کے کارندوں نے پیالہ ڈھونڈ اور جب نہ ملا تو ان لوگوں کے تعاقب میں نکلے، انہیں پیالہ کا حال معلوم نہ تھا اور چونکہ ان لوگوں کے سوا کوئی اور آدمی محل میں ٹھہرا نہیں تھا اس لیے سمجھے، ہو نہ ہو انہی اجنبیوں کی کارستانی ہے، پھر جب کارندوں کے سردار نے تلاشی لی (جس کی موجودگی کا پتہ آیت (٧٢) کے اس جملہ سے ملتا ہے کہ (انا بہ زعیم) تو بنیامین کی خرجی سے پیالہ نکل آیا، اب کوئی وجہ نہ تھی کہ اس کے چور ہونے میں انہیں شبہ ہوتا، وہ ان سب کو لے کر حضرت یوسف کے پاس پہنچے۔ جب حضرت یوسف نے یہ معاملہ سنا تو سمجھ گئے اس حادثہ میں خدا کا ہاتھ کام کر رہا ہے اور اس نے بنیامین کو روک لینے کا خودبخود سامان پیدا کردیا۔ وہ خاموش ہو رہے اور کہا تو صرف یہی کہا کہ ہم اور کسی کو روک نہیں سکتے اسی کو روکیں گے جس کے پاس ہماری چیز نکلی۔ یہ دراصل وہی بات تھی جو خود ان لوگوں کی زبان سے نکل چکی تھی۔ ان سے جب کارندوں نے پوچھا تھا اگر مال نکل آیا تو چور کی کیا سزا ہے؟ تو انہوں نے کہا تھا جس کے پاس سے نکلے وہ خود اپنی سزا ہو، یعنی بطور قیدی کے یا غلام کے اسے صاحب مال رکھ لے۔